بدھ‬‮ ، 17 ستمبر‬‮ 2025 

امامِ عادل کی صفات

datetime 12  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

زمام خلافت جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو سپرد کی گئی تو انہوں نے حضرت حسن ابن ابو حسن بصریؒ کو خط لکھا کہ ان کے لیے ’’امامِ عادل کی صفات اور اوصاف‘‘ لکھ کربھیج دیں چنانچہ حضرت حسنؒ نے مندرجہ ذیل اوصاف لکھ کر بھیجے جن کی بناء پر کوئی امام اور حکمان امامِ عادل شمار ہو سکتا ہے: ’’امیرالمومنین! آپ اتناجان لیجئے کہ امامِ عادل کو اللہ تعالیٰ نے ہر کجی کی طرف مائل ہونے والے کو سیدھا کر دینے والا بنایا ہے،

اور ہر ظالم کو ٹھیک کر دینے والا بنایا ہے اور ہر فاسد کے لیے صلاح، ہر ضعیف کے لیے خوف، ہر مظلوم کے لیے انصاف اور ہر غمزدہ اور پریشان کے لیے ٹھکانہ بنایا ہے اور اے امیرالمومنین! منصف امام اس مشفق نگراں کی طرح ہوتا ہے جو اپنے اونٹوں کے ساتھ شفقت اور نرمی کا معاملہ کرتا ہے اور ان کے لیے بہترین چراگاہ تلاش کرتا ہے اور انہیں ہلاکت و بربادی میں ڈالنے والے چارے سے درندوں سے بچاتا ہے اور گرمی و سردی کی تکلیف سے الگ رکھتا ہے، اے امیرالمومنین! منصف امام اس مشفق باپ کی طرح ہے جو اپنی اولاد کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرتا ہے ان کے بچپن میں ان کے لیے محنت و کوشش کرتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے اور ان کے بڑے ہونے تک زندگی بھر ان کے لیے کماتا ہے اور اپنے مرنے کے بعد ان کے لیے ذخیرہ چھوڑ جاتا ہے۔ اے امیرالمومنین! امامِ عادل اس شفیق ماں کی طرح ہوتا ہے جس نے بڑی تکلیف کے ساتھ اپنے بچے کو پیٹ کے اندر رکھا اور اس کو تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کو بچپن سے اس طرح پالتی ہے کہ اس کے بیدار رہنے کی وجہ سے خود بھی بیدار رہتی ہے اور اس کے سکون ہی سے وہ سکون پاتی ہے کبھی اس کو دودھ پلاتی ہے اور کبھی دودھ چھڑاتی ہے اس کی عافیت سے خوش ہوتی ہے اور بیماری سے غمزدہ ہو جاتی ہے۔ اور منصفِ امام یتیموں کا نگراں ہے،

غریبوں کے لیے ذخیرہ کرنے والا ہے چھوٹوں کی پرورش کرتا ہے اور بڑوں کے لیے نان و نفقہ کا بوجھ برداشت کرتا ہے اور منصف امام پسلیوں کے درمیان دل کی مانند ہے، تمام اعضاء اس دل کے ٹھیک رہنے سے ٹھیک رہتے ہیں اور اس کے بگڑنے سے بگڑ جاتے ہیں اور منصف امام قائم بین اللہ و بین العباد ہوتا ہے خدا کا کلام خود سنتا ہے اور بندوں کو سناتا ہے اللہ کو دیکھتا ہے اور بندوں کو دکھلاتا ہے وہ اللہ کا فرمانبردار ہوتاہے اور بندوں کو اس کی فرمانبرداری کی طرف لاتا ہے۔

امیرالمومنین ان چیزوں میں جن کا اللہ نے آپ کو مالک بنایا ہے اس غلام کے مانند نہ ہو جائیں کہ جس کو اس کے مالک نے امانت دار سمجھ کر اپنے مال کی حفاظت چاہی اور اس مال کو تباہ کردیا اور اہل و عیال کو دھتکار دیا نتیجتاً اس کے گھر والوں کو فقیر و محتاج بنا دیا اور اس کے مال کو منتشر کر دیا اور امیرالمومنین! جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے خباثت سے اور خواہشات سے روکنے کے لیے حدود نازل کیے ہیں تو خدا اس حاکم کو کیوں عذاب نہیں دے گا جو حاکم ان برائیوں کو کرنے لگے۔

اللہ نے قصاص کو اپنے بندوں کے لیے باعثِ حیات بنا کر نازل کیا تو کیا حال ہو گا جب ان کو وہی شخص قتل کر گیا جو ان کے لیے قصاص لینے والا ہو۔ اے امیرالمومنین! موت کے بعد بہت بڑی گھبراہٹ سے بچنے کے لیے موت کو یاد کیجئے اور امیرالمومنین! جس گھر میں آپ اب ہیں اس کے علاوہ آپ کے لیے ایک گھر اور ہے جس میں آپ کو طویل مدت تک رہنا ہے آپ کو ایک گڑھے میں اکیلا ڈال کر آپ کے دوست و احباب علیحدہ ہو جائیں گے۔

آپ تو اب اس سامان کو تیار کریں جو اس دن آپ کے ساتھ رہنے والا ہو جس دن ہر شخص الگ ہو جائے گا، اپنے بھائی، ماں باپ بیوی اور بچوں میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہ رہے گا اور وہ گھڑی یاد کیجئے جب مردوں کو قبروں سے زندہ کیا جائے گا اور ظاہر کر دیا جائے گا جب دلوں میں پوشیدہ چیزیں ظاہر ہو جائیں گی اور نامۂ اعمال چھوٹے بڑے کسی گناہ کو نہ چھوڑے گا۔ اے امیرالمومنین! امید ختم ہونے سے اور موت آنے سے پہلے نرمی کیجئے اور رعایا کے ساتھ خلافِ شرع اورظالمانہ سلوک نہ کیجئے،

اور قوی لوگوں کو ضعیفوں پر مسلط نہ کیجئے چونکہ وہ کسی مسلمان کے حق میں نہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد و پیمان کا ورنہ آپ پر آپ کے سرداروں کے گناہوں کا وبال بھی ہوگا اور آپ کو اپنے بوجھ کے ساتھ اوروں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا آپ ان چیزوں کے دھوکہ میں نہ آئیے جن چیزوں سے وہ راحت کی زندگی گزارتے ہیں ان میں آپ کا نقصان ہے۔ ایسے لوگوں کے دھوکہ میں نہ آئیے جو دنیا میں مزے سے رہتے ہیں اور آپ اپنی اخروی لذتوں کو تباہ کرکے آج اپنی طاقت کو نہ دیکھئے بلکہ کل کی اپنی طاقت کو دیکھئے جب آپ موت کے جال میں پھنسے اور گرفتار ہوں گے اور آپ کو اللہ کے سامنے ملائکہ، انبیاء اور رسولوں کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور جب ’’حی قیوم‘‘ ذات کے سامنے چہرے چھپ جائیں گے۔

اور اے امیرالمومنین! اگرچہ میں اپنی نصیحت کے ذریعہ اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا جہاں تک اربابِ عقل و دانش پہنچے ہیں۔ اس سے پہلے تو میں نے آپ کے ساتھ شفقت اور خیر خواہی میں کوتاہی نہیں کی لہٰذا آپ میرے خط کو اپنے دوست کے علاج کی طرح سمجھئے کہ جیسے وہ اپنے قریبی دوست کو کڑوی دوائیں اس لیے پلاتا ہے کیونکہ وہ اس کے لیے ان دواؤں میں صحت و عافیت کی امید رکھتا ہے۔ اے امیرالمومنین! آپ پر اللہ کی سلامتی اور رحمت و برکت نازل ہو۔‘‘

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



Self Sabotage


ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…