حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے محمد بن زبیر حنظلی کو عون بن عبداللہ بن مسعود کے ساتھ شوذب خارجی اور اس کے ہمنواؤں کے پاس بھیجا جب کہ وہ جزیرہ سے نکل کر علم بغاوت بلند کر چکے تھے۔ محمد بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت عمرؒ نے ہمیں ان کے لیے ایک خط بھی دیا۔ چنانچہ جب ہم ان کے پاس پہنچے اور حضرت عمرؒ کا خط اور پیغام انہیں پہنچایا تو انہوں نے ہمارے ساتھ دو آدمیوں کو روانہ کیا۔
ان میں سے ایک بنو شیبان کا رہنے والا تھا اور دوسرا حبشی تھا اور وہ زبان کا بہت تیز اور دلیل و ثبوت میں بہت غالب آنے والا تھا۔ چنانچہ ہم ان دونوں کو ساتھ لے کر حضرت عمرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپؒ اس وقت ’’خناصرۃ‘‘ میں تھے۔ چنانچہ ہم آپ کے پاس کمرے میں گئے جس کمرے میں آپ کے ساتھ آپ کے فرزند ارجمند عبدالملک اور آپ کا کاتب مزاحم بھی تھا۔ ہم نے حضرت عمرؒ کو ان دو خارجیوں سے متعارف کرایا تو حضرت عمرؒ نے فرمایا: ان دونوں کی تلاشی لو کہیں ان کے پاس کوئی ہتھیار وغیرہ تو نہیں ہے اور پھر تلاشی و اطمینان کے بعد انہیں میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ ان حضرات نے ایسے ہی کیا۔ جب اطمینان ہوا تو ان کو حضرت عمرؒ کی خدمت میں پیش کیا وہ آئے اور انہوں نے حضرت عمرؒ کو سلام کیا۔ پھربیٹھ گئے۔ حضرت عمرؒ نے ان سے کہا: تمہیں کس چیز نے بغاوت پر مجبور کیاہے؟ اور تم ہم سے کس چیز کا انتقام لے رہے ہو؟ اور کس وجہ سے عیب لگا رہے ہو۔ چنانچہ حبشی (عاصم) بولا: اللہ کی قسم! ہم نے آپ کی سیرت و کردار کے بارے آپ کے خلاف بغاوت نہیں کی کیونکہ آپ تو بلاشبہ عدل و احسان کو پھیلا رہے ہیں لیکن ہمارے اور آپ کے درمیان ایک ایسا معاملہ ہے اگر آپ نے ہمیں وہ عطا کیا اور ہماری بات مانی تو آپ کا اور ہمارا گہرا تعلق ہو گا اور اگر آپ نے ہمیں اسے منع کیا یعنی ہماری بات نہ مانی بلکہ ہماری مخالفت کی تو آپ کے اور ہمارے درمیان کوئی راہ و رسم نہیں ہے۔
حضرت عمرؒ نے فرمایا: وہ بات کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ اپنے خاندان اور اپنے اسلاف کے اعمال کی مخالفت کرتے ہیں اور آپ ان کے طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے پر عمل پیرا ہیں اور ان کے طریقے کو مظالم سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی بنو امیہ کے سرداروں نے جو ٹیکس کے طور پر مال جمع کر لیا تھا۔ لہٰذا اگر آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ ہدایت پر ہیں اور وہ گمراہی پر ہیں تو ان سے برات کا اظہار فرما دیں اور ان پر لعنت کریں،
پس یہی بات ہے جو ہمیں اور آپ کو متحد کر دے گی یا جدا کر دے گی۔ حضرت عمرؒ نے بات کا آغاز فرمایا چنانچہ اولاً تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی، پھر فرمایا: میرا خیال ہے کہ تم لوگ دنیا کی طلب میں نہیں نکلے ہو، تمہارا مقصود آخرت ہی ہے مگر تم سے اس کا راستہ اپنانے میں خطا ہوگئی ہے۔ میں تم سے چند چیزوں کے متعلق سوال کرتا ہوں تمہیں اللہ کی قسم ہے کہ تم اپنے علم کے مطابق صحیح اور سچ جواب دینا۔ انہوں نے کہا، ہم ایسا ہی کریں گے۔
چنانچہ حضرت عمرؒ نے ان سے سب سے پہلا سوال یہ پوچھا: تمہارا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے متعلق کیا خیال ہے، کیا وہ تمہارے اسلاف میں سے نہیں تھے اور کیا وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کے لیے تم جنت کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں (یعنی آپ نے ٹھیک فرمایا ہے)۔ پھر حضرت عمرؒ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہؐ کے انتقال کے بعد عرب میں ارتداد کی لہر دوڑ گئی تھی اور حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین سے قتال فرمایا،
پس آپ نے ان کے خون کو بہایا اور ان کی آل اولاد کو غلام بنایا، اور ان کے مال و اسباب کو قبضہ میں لے لیا؟ انہوں نے جواب دیا: ایسے ہی ہوا ہے۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا: کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جب ان کے بعد حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے ان قیدیوں کو جن کو حضرت ابوبکرؓ نے قیدی بنایا تھا، ان کے قوم و قبیلہ کے حوالے کر دیاتھا۔ ان دونوں نے جواب دیا، بالکل ایسے ہی ہوا ہے۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا تو کیا حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ سے بری الذمہ ہو گئے تھے یا حضرت عمرؓ نے ان سے برات کا اظہارکیا تھا۔
انہوں نے جواب دیا: جی نہیں، ان دونوں حضرات نے آپس میں ایک دوسرے سے برات کا اظہار نہیں کیا۔ حضرت عمرؒ نے فرمایا: کیا تم ان سے برات کا اظہار کرتے ہو؟ خارجیوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ حضرت عمرؒ نے کہا: مجھے اہل نروان کے متعلق بتاؤ کیا وہ تمہارے اسلاف میں سے نہیں تھے اور کیا تم ان کے لیے نجات کی گواہ نہیں دیتے؟ وہ بولے: کیوں نہیں، وہ ہمارے اسلاف ہیں اور ہم ان کے لیے نجات کی گواہی بھی دیتے ہیں۔
حضرت عمرؒ نے پوچھا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب اہل کوفہ نے اہل نہروان کی طرف خروج کیا تو انہوں نے اپنے ہاتھوں کو ان پر ظلم کرنے سے روکا، نہ ان کا خوف بہایا اور نہ ان کے مالوں پر قبضہ کیا؟ انہوں نے جواب دیا، ایسا ہی ہوا تھا۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا، کیا تم جانتے کہ جب اہل بصرہ نے عبداللہ بن وھب راسبی کے ساتھ ان کی طرف خروج کیا، عبداللہ بن وھب راہبی قبیلہ ازد میں سے تھا اور فرقہ اباضیہ کے آئمہ میں سے تھا۔
یہ شخص صاحب الرائے اور فصیح و بلیغ ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر آدمی تھا عبادت میں مشغول رہتا، حضرت علیؓ کے زمانے میں ان کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتا رہا ہے لیکن ’’تحکیم‘‘ کا واقعہ پیش کیا تو جس جماعت نے اس کا انکار کیا ان میں عبداللہ راہبی بھی شامل تھا پھر یہ لوگ نہروان میں جمع ہو گئے اس کو امیر بنایا اور پھر انہوں نے حضرت علیؓ سے جنگ کی اور اس طرح راسبی سن 38 ھ میں مارا گیا۔ چنانچہ اہل بصرہ نے بے پرواہ ہو کر ان لوگوں کو قتل کیا اور حتیٰ کہ صاحب النبیؐ حضرت عبداللہ بن خبابؓ کو بھی شہید کیااور ان کی باندی اور حاملہ بیوی کا پیٹ چاک کرکے بے دردی سے ان کو قتل کر دیا۔
اس کے علاوہ قبیلہ طے کی کئی عورتوں کو بھی مار ڈالا۔ پھر انہوں نے عرب کے ایک قبیلہ جنہیں بنو قطیعۃ کہا جاتا تھا ان کے مردوں، عورتوں اوربوڑھوں کو بڑی بے دردی سے بے دریغ قتل کیا حتیٰ کہ یہ لوگ ان کے معصوم بچوں کو ابلتی ہوئی گرم پنیر کی ہانڈی کے اندر زندہ ڈال دیتے تھے! دونوں خارجیوں نے جواب دیا، ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر حضرت عمرؒ نے پوچھا: کیا (اس کے باوجود) اہل کوفہ نے اہل بصرہ سے یا اہل بصرہ نے اہل کوفہ سے برأت اور لاتعلقی کا اظہار کیا؟ انہوں نے جواب دیا، نہیں کیا۔
آپؒ نے پوچھا، کیا تم ان دونوں گروہوں میں سے کسی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہو؟ انہوں نے یک زبان کہا: جی نہیں، ہم کسی سے اظہار لاتعلقی نہیں کرتے۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا، تم مجھے بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے، کیا ’’دین‘‘ ایک ہے یا دو ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، دین تو ایک ہی ہے۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا، کیا تمہارے لیے گنجائش ہے کہ تم میری کسی بات کا انکار کرو؟
انہوں نے جواب دیا: جی نہیں تو حضرت عمرؒ نے فرمایا کہ پھر تمہارے لیے کیسے درست ہو سکتا ہے کہ تم حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو رہنما اور محبوب مانو اور ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کا مددگار اورساتھی مانو کیونکہ ان دونوں طریقہ کار مختلف تھا یا کیسے اہل کوفہ کے لیے درست ہے کہ وہ اہل بصرہ کو دوست بنائیں اور کیسے اہل کوفہ اہل بصرہ کو دوست بنائیں؟
حالانکہ ان کا طریقہ کار مختلف تھا بلکہ ایک دوسرے کے مخالف تھا اور تمہارے لیے یہ بات کیسے روا ہے کہ تم ان تمام لوگوں کو اپنا مقتدا مانو یا ان سے وابستگی کا اظہار کرو کیونکہ انہوں نے بہت بڑی بڑی چیزوں میں یعنی خون، خروج میں اور اموال میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے، تمہارے لیے ان سب سے تعلق وابستہ کرنا بالکل درست ہے اور تمہارے گمان میں میرے لیے صرف ایک بات کی گنجائش ہے یا ایک بات کا اختیار ہے اور وہ صرف یہ کہ میں اپنے اہل بیت پر لعنت کروں اور ان سے لاتعلقی کا اور برأت کا اظہار کروں؟
اگر گناہ گاروں پر لعنت بھیجنا ایسا ہی لازمی فریضہ ہے جسے ہر حال میں پورا کرنا ضروری ہے تو اے بات کرنے والے! تم مجھے بتاؤ، تم نے کتنی مرتبہ فرعون اور ہامان پر لعنت کی ہے۔ اس نے جواب دیا: مجھے تو معلوم نہیں کہ میں نے کب فرعون و ہامان پر لعنت کی ہے۔ حضرت عمرؒ نے فرمایا: تو برباد ہو! تیرے لیے اس بات کی اجازت ہے کہ تو فرعون پر لعنت کرنا چھوڑ دے اور تیرے گمان کے مطابق میرے لیے ہر حال میں یہی ضروری اور لازمی ہے کہ میں اپنے اہل بیت پر لعنت کروں اور ان سے قطع تعلقی کا اعلان کروں،
تم تباہ ہو جاؤ تم سب پرلے درجے کے جاہل لوگ ہو، تم نے ایک چیز کا ارادہ کیا اور اس میں بھی غلطی کھائی اور تمہیں اس میں بھی ٹھوکر لگی، تم ان لوگوں سے اس چیز کو قبول کرکے مان لیتے ہو جس کو رسول اللہؐ نے ان سے قبول نہیں فرمایا تھا اور جس چیز کو رسول اللہؐ نے ان سے قبول فرمایا تھا تم اس کو رد کر دیتے ہو، تمہارے پاس آ کر وہ شخص امن یافتہ ہو جاتا ہے جو رسول اللہؐ کے پاس خوفزدہ ہوتا تھا اور جو رسول اللہؐ کے پاس امن یافتہ ہوتا تھا وہ تمہارے پاس آ کر خوفزدہ ہو جاتا ہے اور اس کے جان و مال کی حفاظت ختم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے جواب دیا، ہم تو ایسے نہیں ہیں۔
آپؒ نے فرمایا، تم نے ابھی ابھی خود ہی تو اس حقیقت کا اقرار کیا ہے اور اب انکار بھی کرنے لگے ہو، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہؐ کو جن لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا تھا وہ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے ، پس رسول اللہؐ نے انہیں دعوت دی کہ بتوں کی عبادت چھوڑ کر، اس بات کی گواہی دو کہ ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘، چنانچہ جس شخص نے اس دعوت پر لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا تو اس کا خون محفوظ ہو گیا اور اس نے رسول اللہؐ کے پاس پناہ حاصل کی اور وہ مسلمانوں میں شمار ہونے لگا اور جس نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو اس سے جہاد کیا گیا؟
ان دونوں نے جواب دیا: بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ حضرت عمرؒ نے پھر فرمایا: کیا تم آج ان لوگوں سے بے تعلقی کا اظہار اور اعلان نہیں کر رہے کہ جنہوں نے بتوں کو چھوڑ دیا ہے اور وہ ان لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں کہ ’’جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘ اب تم ان پر لعنت بھیجتے ہو، انہیں قتل کرتے ہو اور تم نے ان کے خونوں کو اپنے اوپر حلال کرلیا ہے۔ اس کے برخلاف تم ان لوگوں سے بھی ملتے ہو جو ان تمام باتوں کا انکار کرتے ہیں یعنی اسلام نہیں لاتے، جن کا تعلق یہود و نصاریٰ سے ہے پس تم ان کا خون بہانے کو حرام سمجھتے ہو، وہ تمہارے پاس پناہ لے کر محفوظ ہو جاتے ہیں کیا ایسا نہیں ہے؟
حضرت عمرؒ کی یہ ایمان افروز اور دندان شکن گفتگو سن کر حبشی (عاصم) بول اٹھا: ’’میں نے آپ کی دلیل سے زیادہ واضح، روشن اور آپ کی بات سے زیادہ حق کے قریب کوئی بات نہیں دیکھی۔ میں تو ابھی گواہی دیتاہوں کہ آپ ہی حق پر ہیں اور میں ہر اس شخص سے علیحدگی کا اعلان کرتاہوں جو آپ کی مخالفت کرے۔‘‘ پھر حضرت عمرؒ نے شیبانی سے کہا: تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟
اس نے جواب دیا کہ آپ نے کیا یہی اچھی بات کی اور کیا اچھے انداز میں صورتحال بیان کی ہے لیکن میں مسلمانوں (خارجیوں) کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب نہیں کروں گا کہ جس کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ ان کی اس کے متعلق کیا دلیل ہے لہٰذا میں ان سے ملوں گا شاید کہ ان کے پاس کوئی ایسی دلیل ہو جس کا علم مجھے نہ ہو۔ حضرت عمرؒ نے اس سے فرمایا، اچھا! تم اپنے بارے میں بہتر سمجھتے ہو۔ چنانچہ حبشی حضرت عمرؒ کے پاس پندرہ راتیں ٹھہرا رہا پھر اللہ کو پیارا ہو گیا، اور شیبانی اپنی قوم سے جا ملا اور انہی کے ساتھ مارا گیا۔