دو خارجی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس آئے ان دونوں نے ان الفاظ میں آپؒ کو سلام کیا: ’’السلام علیک یا انسان‘‘۔ اے انسان! تجھ پر سلامتی ہو۔ حضرت عمرؒ نے جواب دیا: ’’وعلیکما السلام یا انسانان‘‘ اے دو انسانوں! تم پر بھی سلامتی ہو۔ خارجی: اللہ کی اطاعت اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس کی اپنائیں۔ حضرت عمرؒ : جو اس بات سے جاہل رہا وہ گمراہ ہو گیا۔
خارجی: تمام اموال و اسباب مالداروں کے پاس جمع نہیں ہوناچاہیے۔ حضرت عمرؒ : بلاشبہ وہ مالدار اور ظالم ان مال و اسباب سے محروم کیے جا چکے ہیں۔ خارجی: اللہ کا مال اس کے حقدار بندوں میں تقسیم کیا جائے۔ حضرت عمرؒ : اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں تمام تر تفصیلات اپنی کتاب میں بیان فرما دی ہیں۔ خارجی: نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے۔ حضرت عمرؒ : ایسا کرنا نماز کے حقوق میں سے ہے۔ خارجی: نماز میں صفیں سیدھی رکھی جائیں۔ حضرت عمرؒ : یہ اتمام سنت میں سے ہے۔ خارجی: ہمیں آپکی طرف بھیجا گیا ہے۔ حضرت عمرؒ : تم بات پہنچاؤ، ڈراؤ نہیں۔ خارجی: لوگوں کے درمیان حق اور انصاف سے معاملہ کیجئے۔ حضرت عمرؒ : تم دونوں سے پہلے اللہ تعالیٰ اس کا حکم دے چکے ہیں۔ خارجی: حکم کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ حضرت عمرؒ : اگر تم اس کلمہ کے ساتھ باطل کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو تو یہ کلمہ برحق ہے۔ خارجی: امانتیں امانت داروں کے حوالے کیجئے۔ حضرت عمرؒ : وہی تو میرے مددگار ہیں۔ خارجی: خیانت سے بچو۔ حضرت عمرؒ : خیانت سے تو چور کوبچنا چاہیے۔ خارجی: پھر شراب اور خنزیر کا گوشت۔۔۔! حضرت عمرؒ : اہل شرک اور غیر مسلم اس کے حق دار ہیں۔ خارجی: جو شخص دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا تو وہ امن والا ہو گیا۔ حضرت عمرؒ : اگر اسلام نہ ہوتا تو ہم امن والے نہ ہوتے۔
خارجی: رسول اللہ ؐ کے عہد والے۔ حضرت عمرؒ : ان کے لیے ان کے عہود ہیں۔ خارجی: ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ حضرت عمرؒ : اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ خارجی: یہود و نصاریٰ کی عبادت گاہوں کو تباہ کر دیجئے۔ حضرت عمرؒ : یہ تو میری رعایا کی ضرورت کی چیزیں ہیں۔ خارجی: ہمیں قرآن مجید سے نصیحت کیجئے۔ حضرت عمرؒ : ’’اس دن سے ڈرو جس دن تمہیں اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا۔‘‘
خارجی: ہمیں ان کی طرف واپس بھیج دیں جنہوں نے ہمیں بھیجا ہے۔ حضرت عمرؒ : میں نے تمہیں روکا ہی کب ہے۔ خارجی: آپ ہمارے بھائیوں کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ حضرت عمرؒ : میں نے انہیں دیکھا ہی نہیں نہ ان کی بات سنی۔ خارجی: ہمیں برید کی سواریوں پر واپس بھیجئے۔ حضرت عمرؒ : یہ نہیں ہو سکتا، وہ اللہ کا مال ہے، جو میں تمہارے لیے جائز نہیں سمجھتا۔ خارجی: ہمارے پاس تو مال و اسباب نہیں ہے۔ حضرت عمرؒ : پھر تو تم دونوں مسافر ہو، لہٰذا تمہارا خرچہ میرے اوپر ہے۔