جمعہ‬‮ ، 11 اپریل‬‮ 2025 

’’عید کے کپڑے ‘‘

datetime 12  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

گھر والے کئی دنوں سے کہہ رہ تھے کہ آپ عید کا کوئی اچھا ساسوٹ سلوا لیں ،پھر دن کم رہ جائیں گے تو ایک تو سوٹ مہنگا بہت ملے گا اور دوسرا درزی اتنی جلدی سی کر بھی نہیں دے گا،کوئی منہ ملاحضہ والا ہوا بھی توسلائی ڈبل لے گا۔ ایک تو روزہ،اوپر سے گرمی کا زور،پھر کاموں کی مصروفیت نے مجھے بازار جانے نہیں دیا۔غالباً 20 ویں روزے میں نے جیب میں 2 ہزار روپے ڈالے کہ بازار جا کر سوٹ خرید لائوں لیکن رات تک نہ جاسکا۔

نماز تراویح سے فارغ ہو کر واک پر جاتےہوئےمیرے دوست راشد بشیر نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ، سرجی آپ نے عید کا سوٹ سلوا لیا ہے؟ میں نےہنس کر کہا ،کیوں آپ نے سلوا کر دینا ہے؟ وہ جواب میں کہنے لگا، یار !آج میں اپنےگھر اندر کمرے میں لیٹا ہوا تھا باہر صحن میں ہماری ایک جاننے والی امی جان کے پاس آئی تھی۔اس کے خاوند کا اچھا خاصا کاروبار تھا۔عزت و آبرو سے زندگی گزررہی تھی ۔! امی جان سے چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی ، خالہ جان جب سے میرے خاوند کو کینسر ہوا ہے چارپائی پر پڑا ہے،سارا مال اسباب علاج پر خرچ ہوگیا۔اوپر سے عید آئی ہے، بچوں کے پہننے کو نیا تو کیا کوئی پرانا سوٹ بھی باقی نہیں بچا۔آپ استعمال شدہ دو تین سوٹ دے دیں میں کاٹ کر چھوٹے کرکے بچوں کو پہنا دوں گی۔ امی جان نے مجھ سے آکر پوچھا کہ کوئی استعمال شدہ سوٹ ہیں ،کسی کو دینے ہیں،اور بوجھل دل سے ساری بات دوبارہ سنادی۔ میں نے کہا امی جان اسے کہہ دیں کل تک انتظار کر لے ،کچھ کرتا ہوں۔ پھرراشد مجھ سے کہنے لگا! یاربیگم کے کہنے پر میں نے آج ہی بینک سے اپنے عید کے سوٹ کے لیے پیسے نکلوائے تھے ،اب سوچ رہا ہوں کہ یہ پیسے اس عورت کو دے دوں ،تم کیا کہتے ہو؟

راشد کی بات سن کر،میں نے کچھ کہے بغیراپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور 2 ہزار روپے نکال کراس کے ہاتھ پر رکھ دئیے۔ دن پر دن گزرتے گئے ،گھر والوں کے پوچھنے پر میں نے کہہ دیا کہ ہاں سوٹ سلنے کے لیے دے آیا ہوں دعا کریں عید تک مل جائے۔وہ تھوڑی سے ناراضگی کے بعد چپ کرگئے۔میں نے سوچا عید پر بہانہ کردوں گا کہ درزی نے سی کر نہیں دیا۔خیر عید والی رات بھی آگئی،بچوں کے سوٹ تیار کرتے ہوئے بیگم نے پھر کہنا شروع کردیا کہ آپ کا سوٹ نہ آنا تھا نہ آیا،

کتنی بری بات ہے،عید پر کیا پہنیں گے؟ میں اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔رات 8بجے دروازے پر دستک ہوئی ،میں نےجاکردیکھا تو میرادرزی امجد ایک شاپر میں نئے کپڑوں کا ایک جوڑا لیے کھڑا تھا ۔میں نے پوچھا تو کہنے لگا، سرجی ! آپ نے کافی عرصہ پہلے مجھے تین سوٹ سلنے کے لیے دیے تھے۔ان میں سے ایک مجھ سے استری کرتے ہوئے جل گیا تھا۔میں نے آپ کو بتایا نہیں ،

آپ نے بھی نہیں پوچھا اور بھول گئے۔میں نے سوچا عید پراور کپڑا ڈال کر آپ کو سوٹ سلائی کرکے دےدوں گااور ساتھ ہی معافی بھی مانگ لوں گا۔یہ میری طرف سے معذرت کے ساتھ قبول فرمالیں۔ یہ کہہ کر وہ میرا عید کا سوٹ دے کرچلا گیا ۔ میں نے تشکر بھری ڈبڈباتی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ مجھے یوں لگا دور آسمانوں پر کوئی مجھے دیکھ کر مسکرا رہاہے۔۔

موضوعات:



کالم



یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی


عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…