عطاء کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ابن عمرؓ نے مجھ سے دو ہزار درہم قرض لئے، جب ادا کئے تو دو سو زیادہ آئے میں نے واپس کرنا چاہا تو کہا تمہی لے لو۔ اسی طریقہ سے ایک مرتبہ ایک اور رقم کسی سے قرض لی جب واپس کی تو مقروض کے درہم سے زیادہ کھرے درہم ادا کئے، قرض خواہ نے کہا کہ یہ درہم میرے درہموں سے زیادہ کھرے ہیں فرمایا عمداً ایسا کیا تھا، آپ کے غلام نافع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ بیس ہزار درہم ایک
وقت تقسیم کر دیئے، بعد میں جو لوگ آئے ان کو ان لوگوں سے قرض لے کر دیئے، اکثر روزہ رکھتے تھے لیکن اگر کوئی مہمان آ جاتا تو افطار کرتے کہ مہمان کی موجودگی میں روزہ رکھنا فیاضی سے بعید ہے۔ اصول یہ ہے کہ جہاں مہمان جائے تین دن کی مسنون مہمانی کے بعد اپنا سامان خود کرے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب مکہ جاتے تو عبداللہ بن خالد کے گھر ٹھہرتے تھے لیکن تین دن کے بعد اپنی جملہ ضروریات بازار سے پوری کرتے تھے۔