صدقہ و خیرات کے میدان حضرت ابن عمرؓ کا نام نمایاں حیثیت کا حامل تھا، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ ایک ایک نشست میں بیس بیس ہزار تقسیم کر دیتے، دو دو تین تین ہزار کی رقمیں تو عموماً خیرات کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ یکمشت تیس ہزار کی قسم خدا کی راہ میں لگا دی۔ قرآن پاک میں نیکوکاری کے لئے محبوب چیز خدا کی راہ میں دینے کی شرط ہے۔
’’لن تنالو البر حتی تنفقو مما تحبون ‘‘ ترجمہ : تم اس وقت تک نیکی کمال کے نہیں پا سکتے جب تک اپنے محبوب اموال اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کرو۔ حضرت ابن عمرؓ اس آیت کی عملی تفسیر تھے، آپ ہمیشہ اپنی پسندیدہ چیزوں کو راہ خدا میں دے دیتے تھے، چنانچہ جو غلام آپ کو پسند ہوتا اس کو راہ خدا میں آزاد کر دیتے اور آپ کی نظر میں وہ غلام پسندیدہ ہوتا جو عبادت گزار ہوتا، غلام اس راز کو سمجھ گئے تھے اس لئے وہ مسجدوں کے ہو رہتے، حضرت ابن عمرؓ ان کے ذوق عبادت کو دیکھ کر خوش ہوتے اور آزاد کر دیتے آپ کے احباب مشورہ دیتے کہ یہ لوگ صرف آزادی حاصل کرنے کے لئے اتنا تقویٰ دکھاتے ہیں اور آپ کو دھوکہ دیتے ہیں آپ فرماتے ’’من خدعنا باللہ خدعنالہ‘‘ جو شخص ہم کو خدا کے ذریعے سے دھوکہ دیتا ہے ہم اس کا دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ آپ کو ایک لونڈی بہت محبوب تھی، اس کو راہ خدا میں آزاد کر کے اپنے ایک غلام کے ساتھ بیاہ دیا اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا لڑکے کو آپ چومتے اور فرماتے کہ اس سے کسی کی خوشبو آتی ہے۔ اسی طریقہ سے ایک دوسری من پسند لونڈی کو آزاد کر دیا اور فرمایا ’’لن تنالو البر حتی تنفقو مما تحبون ‘‘ ترجمہ : تم اس وقت تک نیکی کمال کے نہیں پا سکتے جب تک اپنے محبوب اموال اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کرو۔
آپ اس کثرت سے غلام آزاد کرتے تھے کہ آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہو گئی تھی ایک مرتبہ انہوں نے نہایت عمدہ اونٹ خریدا اور سوار ہو کر حج کو چلے۔ اتفاق سے اس کی چال بہت پسند آئی فوراً اترے اور حکم دیا کہ سامان اتار لو اور اس کو قربانی کے جانوروں میں داخل کر دو۔