حکم بن عمر عینی کہتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ حضرت عمرؒ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا، اس دن موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ نمازِجنازہ پڑھی گئی حضرت عمرؒ کا سامنا ایک ایسے غریب آدمی سے ہوا جس کے پاس چادر وغیرہ نہیں تھی کہ جس سے وہ بارش سے اپنا بدن بچاتا، اس دوران حضرت عمرؒ نے اس شخص کو اپنے پاس بٹھایا اور اپنی چادر کے زائد حصے سے اس کو ڈھانپ لیا۔
پھر حضرت عمرؒ نے جنازے کو کندھا دینا شروع کیا، آپ نے جنازے کی چارپائی کے دائیں طرف کو اپنے بائیں کندھے پر اٹھایا پھر چارپائی کے بائیں حصے کو اپنے دائیں کندھے پر اٹھایا پھرآپ جنازے کے آگے چلنے لگے اور لوگ جنازے کی چارپائی کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ جب میت کی تدفین ہو گئی تو آپ اس شخص کی قبر پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگے اور اپنی انگلی سے اشارہ کرکے دعا مانگنے لگے کہ ’’اے ہمارے پروردگار اس کی مغفرت فرما، اس پر رحم فرما اور اس کو ان تمام باتوں کو معاف فرما جو تیرے علم میں ہیے۔‘‘ حکم بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؒ کو دیکھا کہ کبھی مسلمانوں کے اس حلقے میں بیٹھتے ہیں اور کبھی اس دوسرے حلقے میں بیٹھتے ہیں۔ بسا اوقات کوئی اجنبی آ جاتا تو وہ حضرت عمرؒ کو نہ پہچان سکتا، وہ حلقے کے پاس کھڑا ہو جاتا اور پہچاننے کی کوشش کرتا مگر جب نہ پہچان سکتا تو لوگوں سے پوچھتا کہ امیرالمومنین کہاں ہیں؟ کس حلقہ میں ہیں؟ آخر کار اس کو اشارہ کرکے بتایا جاتا کہ ’’یہ ہیں امیرالمومنین۔‘‘