یعقوب نے اپنے والد کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمرؒ بہت اعلیٰ معیار کا لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے اور عطر و خوشبو لگانے میں بہت زیادہ اسراف کیا کرتے تھے حتیٰ کہ میں نے ’’عنبر‘‘ کو ان کی داڑھی پر ایسے بکھرے ہوئے دیکھا ہے جیسے نمک پڑا ہوا ہو۔ یعنی آپ کے ناز و نعم کی کوئی حد نہ تھی۔ لیکن جب خلافت کی ذمہ داری آپ کو سپرد کی گئی،
تو آپ کی حالت یکسر بدل گئی یہاں تک کہ آپ نے اپنی ہر قسم کی آسائشِ زندگی کو فراموش کر ڈالا۔ کہتے ہیں کہ رباح بن عبیدہ جو کہ اہل بصرہ میں سے ایک تاجر تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ان دنوں مدینہ منورہ میں تھے، انہوں نے رباح سے کہا کہ میرے لیے ایک خالص ریشم کا نرم و ملائم جبہ خرید کر لاؤ۔ رباح حضرت عمرؒ کے لیے دس دینار کا ایک عمدہ ترین جبہ خرید کر لائے اور آپؒ کی خدمت میں پیش کیا، آپؒ نے اس جبے کو چھوا اور فرمایا: ’’مجھے تو یہ کھردرا معلوم ہو رہا ہے۔‘‘ جب حضرت عمرؒ خلیفہ بنے تو پھر آپؒ نے رباح کو جبہ خریدنے کا حکم دیا تو انہوں نے آپؒ کے لیے ایک دینار میں اون کا ایک جبہ خریدا، اور ان کی خدمت میں پیش کیا، آپ حیرت کی وجہ سے اس جبے میں اپنا ہاتھ داخل کرنے لگے اور کہنے لگے ’’یہ جبہ کس قدر نرم و ملائم ہے۔‘‘ رباح نے کہا ’’عجیب بات ہے! آپ پہلے خالص ریشم کو بھی کھردرا محسوس کرتے تھے اور آج اون بھی آپ کو نرم و ملائم لگتا ہے!‘‘ حضرت عمرؒ نے جواب دیا ’’وہ بھی ایک حالت تھی اور یہ بھی ایک حالت ہے۔‘‘