سفیان ثوریؒ امام شعبیؒ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن زبیر، مصعب بن زبیر، عبدالملک بن مروان اور ابن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین چاروں آدمی خانہ کعبہ میں جمع تھے سب کی رائے ہوئی کہ ہر شخص رکن یمانی پکڑ کر اپنی اپنی دلی تمناؤں کے لئے دعا مانگے، پہلے عبداللہ بن زبیرؓ اٹھے اور دعا مانگی کہ خدایا تو بڑا ہے اور تجھ سے بڑی ہی چیز بھی مانگی جاتی ہے
اس لئے میں تجھ کو تیرے عرش، تیرے حرم، تیرے نبی اور تیری ذات کی حرمت کا واسطہ دلا کر دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت زندہ رکھ جب تک حجاز پر میری حکومت اور عام خلافت نہ تسلیم کر لی جائے۔ اس کے بعد مصعب بن زبیرؓ اٹھے اور رکن یمانی پکڑ کر دعا مانگی کہ تو تمام چیزوں کا رب ہے، آخر میں سب کو تیری ہی طرف لوٹنا ہے، میں تیری اس قدرت کا واسطہ دے کر جس کے قبضہ میں تمام عالم ہے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک دنیا سے نہ اٹھا جب تکہ میں عراق کا والی نہ ہو جاؤں اور سکینہ میرے نکاح میں نہ آ جائے اس کے بعد عبدالملکؓ نے کھڑے ہو کر دعا کی کہ اے زمین و آسمان کے خدا! میں تجھ سے ایسی چیزیں مانگتا ہوں جس کو تیری اطاعت گزار بندوں نے تیرے حکم سے مانگا ہے، میں تجھ سے تیری ذات کی عظمت، تیری مخلوقات و بیت الحرم کے رہنے والوں کے حق کا واسطہ دے کر دعا مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا سے اس وقت تک نہ اٹھا، جب تک کہ مشرق و مغرب پر میری حکومت نہ ہو جائے اور اس میں جو شخص رخنہ اندازی کرے اس کا سر نہ قلم کر دوں، جب یہ لوگ دعا مانگ چکے تو حضرت ابن عمرؓ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ ’’تو رحمن و رحیم ہے، میں تیری اس رحمت کا واسطہ دے کر دعا کرتا ہوں جو تیرے غضب پر غالب ہے کہ تو مجھے آخرت میں رسوا نہ کر اور اس عالم میں مجھے جنت عطا فرما‘‘۔