ملازمین کے آرام میں خلل انداز ہونا آپ کو گوارا نہیں تھا۔ کیونکہ آپؒ سمجھتے تھے کہ ان کے لیے آرام کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا دوسروں کے لیے ضروری ہے۔ جب دیکھتے کہ کوئی ملازم سویا ہوا ہے یا آرام کر رہا ہے تو ان اوقات میں آپ اپنا کام خود کر لیتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ رجاء بن حیوۃ سے ملاقات کچھ طویل ہو گئی اور رات زیادہ گزر گئی اور چراغ جھلملانے لگا۔ آپ کے پاس ہی ملازم سویا ہوا تھا۔ رجاء نے کہا ’’امیرالمومنین! اسے جگا دوں تاکہ یہ
چراغ میں تیل ڈال دے؟ آپ نے فرمایا ’’نہیں اسے سونے دو۔ سارے دن کا تھکا ماندہ ہے۔‘‘ رجاء نے اب خود چراغ درست کرنے کا ارادہ کیا آپ نے انہیں روک دیا کہ مہمان سے کام لینا مروت اور حسن اخلاق کے خلاف ہے۔ چنانچہ آپؒ نے خود اٹھ کر زیتون کا تیل لیا اور چراغ میں ڈال کر اس کو درست کیا۔ پھر آ کر فرمایا ’’جب میں اٹھا تھا۔ تب بھی امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز تھا اور اب بھی امیرالمومنین ہوں، اس کا کام کرنے سے میری شخصیت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔