قائداعظم محمد علی جناحؒ کوآل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں اور تیزی سے تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال نے مصروف کر دیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح ؒ بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے لگیں ۔ اسی دوران قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اکلوتی صاحبزادی دینا جناح اپنے پارسی ننھیال کے زیادہ قریب ہو گئیں۔ پھر وہ وقت آیا جب قائداعظم ؒ کو پتہ چلا کہ ان کی بیٹی ایک پارسی
نوجوان نیول واڈیا کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہیں۔ قائداعظم ؒ نے اپنی بیٹی کو ایک غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنے سے روکا۔ اس موضوع پر باپ بیٹی کے درمیان ایک مکالمہ تاریخ کی کئی کتابوں میں محفوظ ہے۔ قائداعظم ؒ نے اپنے بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں پڑھے لکھے مسلمان لڑکے ہیں تم ان میں سے کسی بھی مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کر لو۔ جواب میں بیٹی نے باپ سے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں خوبصورت مسلمان لڑکیاں تھیں لیکن آپ نے ایک پارسی لڑکی سے شادی کیوں کی۔ قائداعظم ؒ نے جواب میں کہا کہ پیاری بیٹی!تمہاری ماں نے شادی سے قبل اسلام قبول کر لیا تھا لیکن بیٹی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ قائداعظم ؒ جن کی آنکھ کے ایک اشارے پر کروڑوں مسلمان اپنی گردنیں کٹوانے کیلئے تیار تھے وہ اپنی بیٹی کی ضد کے سامنے بے بس ہو گئے۔ بیٹی نے باپ کی مرضی کے خلاف شادی کر لی۔ قائداعظمؒ شادی میں شریک نہیں ہوئے۔ وہ بیٹی سے سخت ناراض تھے۔ انہوں نے بیٹی سے ملنا جلنا کم کر دیا۔ بیٹی کی طرف سے کبھی سالگرہ پر مبارکباد کا کارڈ آتا تو قائداعظمؒ جواب میں لکھ بھیجتے کہ’’مسز واڈیا آپ کا بہت شکریہ‘‘۔ قائداعظم کے کچھ مخالفین نے کوشش کی کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ جس شخص کی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے شادی کر لی وہ مسلمانوں کا لیڈر کیسے ہو سکتا ہے لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت قائداعظم ؒ کے ساتھ کھڑی رہی۔