ترک سلطان کمال لوگ تھے‘ یہ لڑتے تھے تو کمال کر دیتے تھے‘ امن میں آتے تو بھی کمال کر دیتے تھے‘ سلطنت عثمانیہ کے ساتویں حکمران سلطان محمد نے 1453ءمیں استنبول فتح کر کے بھی کمال کر دیا‘ یہ شہر ویٹی کن سٹی کے بعد عیسائیوں کا مقدس ترین شہر تھا‘ آیا صوفیہ عیسائیوں کا دوسرا مقدس چرچ تھا‘استنبول قسطنطنیہ کہلاتا تھا اور قسطنطنیہ ہزار سال تک ناقابل تسخیر رہا‘
شہر کے دفاع کی بڑی وجہ اس کا جغرافیہ تھا‘ یہ شہر دو سمندروں کے درمیان پہاڑ کی چوٹی پر آباد تھا‘ شہر تک پہنچنے کا واحد راستہ باسفورس اور باسفورس کے پانیوں سے نکلا ہوا گولڈن ہارن تھا‘ گولڈن ہارن پانی کی ساڑھے سات کلو میٹر لمبی باریک پٹی ہے‘ یہ پٹی بلندی سے سینگ کی طرح دکھائی دیتی ہے اور اس وجہ سے گولڈن ہارن کہلاتی ہے‘استنبول کے بازنطینی حکمرانوں نے گولڈن ہارن میں لوہے کی مضبوط زنجیر بچھا رکھی تھی‘ یہ لوگ زنجیر کھینچ دیتے تھے‘ جہاز رک جاتے تھے اور یہ بعدازاں گولڈن ہارن میں آتش گیر مواد ڈال کر پانی کو آگ لگا دیتے تھے‘ جہاز جل کر راکھ ہو جاتے تھے‘ترک یہ شہر فتح کرنا چاہتے تھے‘ کیوں کرنا چاہتے تھے اس کی وجہ حدیث مبارکہ تھی‘ نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا‘ میری امت کا جو شخص قسطنطنیہ فتح کرے گا وہ جنتی ہو گا ‘ ترک یہ سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے‘ سلطان محمدفروری 1451ءمیں19سال کی عمر میں خلیفہ بنا تو ترک سلطانوں کی یہ خواہش اسے ورثے میں مل گئی‘اس نے 1453ءمیں استنبول کا محاصرہ کیا اور دنیا کی تاریخ میں عجیب کمال کر دیا‘ سلطان محمد نے ہزاروں درخت کٹوائے‘ درختوں کے تختے بنائے‘ تختوں پر جانوروں کی چربی چڑھائی‘ بحری جہاز تختوں پر رکھے‘ ہزاروں لوگوں نے یہ جہاز کھینچے‘ دھکیلے اور سلطان محمد بحری جہازوں کو پہاڑ کے اوپر سے دھکیل کر سمندر تک لے آئے‘ استنبول کے لوگ اگلی صبح جاگے تو وہ گولڈن ہارن میں جہاز دیکھ کر حیران رہ گئے‘
سلطان نے29مئی 1453ءکو شہر کو فتح کیا اور تاریخ میں سلطان محمد فاتح بن گیا‘ استنبول میں آج بھی سلطان فاتح اور ان کی ملکہ گل بہار کا مزار موجود ہے‘ ترکوں نے ایک کمال مسجد مزار کا کمبی نیشن بنا کر بھی کیا ‘ ترک سلطان زندگی میں ایک شاندار مسجد بنواتے تھے‘ مسجد کی دیوار کے ساتھ اپنا مزار اور اپنے خاندان کا خصوصی قبرستان بنواتے تھے اور انتقال کے بعد مزار میں دفن ہو جاتے تھے‘ مساجد اللہ کے گھر ہوتی ہیں‘یہ ہمیشہ قائم رہتی ہیں اور اللہ کے گھروں کے استحکام کی وجہ سے ترک سلطانوں کے مزارات بھی آج تک سلامت ہیں‘ سلطان فاتح کا مزار بھی فاتح مسجد کے ساتھ واقع ہے۔