ایک روز حضرت عمرؒ کے صاحبزادے عبدالملکؒ اپنے والد کے پاس آئے۔ دیکھا کہ حضرت عمرؒ اپنے چچا زاد بھائی مسلمہ کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنے والد کو تنہائی میں بلایا تاکہ کچھ کہا جا سکے۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا کیا کوئی راز کی بات ہے جو تم نے مجھے تنہائی میں بلایا۔ عبدالملک نے کہا ’’ہاں‘‘، مسلمہ کھڑے ہو گئے اور آپ اپنے والد کے ساتھ تنہائی میں بیٹھ گئے اور کہا
’’امیرالمومنین! کل قیامت کے روز آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے جب وہ آپ سے پوچھے گا: عمر! تو نے بدعت دیکھی تھی لیکن اسے مٹانے کی کوشش نہیں کی تھی یا تو نے مردہ سنت (ترک کی ہوئی سنت) کو زندہ کرنے کی کوئی جدوجہد نہ کی تھی؟‘‘ حضرت عمرؒ نے فرمایا: ’’جانِ پدر! کیا اس نصیحت پر تم کو کسی شے نے آمادہ کیا ہے یا تم یہ بات اپنے دل سے کہہ رہے ہو‘‘؟ عبدالملکؒ نے کہا: ’’نہیں نہیں بخدا! یہ بات میں اپنے دل سے کہہ رہا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ سے روز قیامت اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، لیکن آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ سیدنا عمرؒ نے فرمایا: ’’لختِ جگر! اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین جزائے خیر عطا فرمائے اور تم پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے۔ تم نیکی اور صلاح کے لیے میرے بہترین معاون ثابت ہو گے۔ بیٹا! یاد رکھو، تمہاری قوم نے خلافت میں بے شمار گانٹھیں لگا دی ہیں اور بڑی مشکلات پیدا کر دی ہیں اور ظلم کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم بنا دی ہیں اور جب میں ان کے مغصوبہ اموال اور جبراً قبضہ کی ہوئی جائیدادوں کی واپسی کے بارے میں جھگڑتا ہوں تو مجھے ایسی پھوٹ اور تفرقہ پڑ جانے کا خدشہ لگا رہتا ہے جس سے خون خرابہ کی نوبت آ جائے، بخدا! میرے نزدیک دنیا کا فنا ہو جانا آسان ہے لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کا ایک قطرہ خون بھی نکلے‘‘۔ کیا تو اس پر راضی نہیں کہ کبھی تیرے باپ کو وہ مبارک دن دیکھنا نصیب ہو گا جس روز وہ بدعت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گا اور تمام دنیا کو سنت کے انوار سے جگمگا دے گا یہاں تک کہ حق تعالیٰ شانہ فیصلہ فرمائیں اور اللہ تعالیٰ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔