جب حضرت عمرؒ سلیمان کو دفن کرکے فارغ ہو گئے اور تمام مغصوبہ جائیدادیں بیت المال میں جمع کر دیں اور تمام خانگی سامان وغیرہ فروخت کر چکے اور لونڈیوں کو آزاد کر چکے تو تمام رات سو نہ سکے۔ پھر صبح کو ظہر تک یہی کام سرانجام دیتے رہے اور ظہر کی نماز پڑھ کر آرام کرنا چاہا تو آپ کے صاحبزادے عبدالملک آپ کے پاس آئے اور پوچھا: ’’امیرالمومنین! اب آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
آپ نے جواب دیا: ’’جانِ پدر! اب میں ذرا سا سو کر آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ پوچھا ’’ابا جان! کیا آپ مغصوبہ جائیدادوں اورزمینوں کو واپس دلائے بغیر سونا چاہتے ہیں؟‘‘ فرمایا: میرے پیارے بچے! کل رات میں تمہارے چچا کی تجہیز و تکفین کے سلسلہ میں تمام رات جاگتا رہا اب میں تھوڑی دیر سونے کے بعد باقی کام انجام دوں گا کیونکہ اب مجھ پر نیند کا غلبہ ہے۔ عبدالملک نے کہا: ’’امیرالمومنین! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ سو کر اٹھیں گے؟ حالانکہ مستقبل میں ایک لمحے کے بارے میں بھی بھروسہ نہیں ہے۔‘‘ حضرت عمرؒ نے فرمایا: ’’جانِ پدر! ذرا میرے قریب آؤ‘‘۔۔۔ عبدالملک باپ کے قریب گئے تو باپ نے انہیں گلے سے لگا لیا، پیشانی سر اور منہ کو چوما اور حق تعالیٰ شانہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اتنا نیک اور صالح بیٹا عطا فرمایا جو ان کی دین کے کاموں میں اعانت و مدد کرتا ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر آپ باہر گئے اور بالکل آرام نہ فرمایا اور باہر جا کر اعلان کروا دیا کہ جس کسی پر کسی کا کوئی ظلم ہوا ہو وہ امیرالمومنین کے سامنے آ کر بیان کرے۔