حضرت عمرؒ کی وفات ایک ولی اللہ کی دعا سے ہوئی۔ عبداللہ بن زکریاؒ اس زمانہ کے بڑے اولیاء میں سے تھے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ نے آدمی بھیج کر ان کو بلایا اور ان سے کہا: جانتے ہو کہ میں نے آپ کو کیوں بلوایا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرمایا! ایک نہایت ضروری کام کے لیے بلوایا ہے لیکن وہ بتاؤں گا اس وقت جب آپ قسم کھائیں کہ وہ کام ضرور کریں گے۔ عبداللہ بن زکریاؒ نے کہا آپ کام بتائیں میں ضرور تعمیل کروں گا۔ فرمایا: پہلے قسم کھاؤ۔ انہوں نے قسم کھائی، فرمایا: اللہ سے دعا کرو کہ وہ مجھے اپنے پاس بلا لے۔ عبداللہؒ نے کہا کہ تب تو میں مسلمانوں میں سے بدترین شخص آپ کے پاس آیا ہوں اور
امت محمدیہ کا بدترین دشمن ہوں۔ حضرت عمرؒ نے کہا آپ نے قسم کھا لی ہے۔ آخر کار عبداللہ نے اپنی قسم پوری کرتے ہوئے آپ کی موت کی دعا مانگی لیکن دعا مانگتے ہوئے بہت ہچکچائے اور بادل نخواستہ ان الفاظ میں دعا مانگی: ’’اے اللہ! آپ کے بعد مجھے بھی زندہ نہ رکھ۔‘‘ جب عبداللہ یہ دعا مانگ رہے تھے کہ اتنے میں حضرت عمرؒ کا ایک چھوٹا بچہ آ گیا۔ آپ نے عبداللہ سے کہا کہ اس کے لیے بھی دعا مانگیں کیونکہ مجھے اس سے بہت محبت ہے۔ عبداللہ نے اس بچہ کے لیے بھی دعا مانگی۔ پھر یوں ہوا کہ حضرت عمرؒ کے انتقال کے بعد حضرت عبداللہؒ بھی جلد ہی انتقال فرما گئے۔ پھر وہ بچہ بھی فوت ہوگیا۔