سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کا نظریہ یہ تھا کہ اس وقت تک عدالت کا کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ قاضی ایک ناقابل تسخیر قوت اورنہ ٹوٹنے والے غلبہ کا مالک نہ ہو اور یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ قاضی کا فیصلہ ہر ایک پر نافذ ہو حتیٰ کہ امام اور خلیفہ پر بھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ حلوان کا ایک مصری حضرت عمرؒ کے پاس آیا۔ اور عرض کیا کہ آپ کے والد عبدالعزیزؒ نے مصر کی گورنری کے زمانہ میں میری جائیداد غصب کر لی تھی۔
اس نے حضرت عمرؒ کو ڈانٹا بھی۔ حضرت عمرؒ اس کی باتوں سے نرم بھی ہو گئے اور شفیق بھی اور اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر سکے۔ آپ نے اس حلوانی کو سمجھایا کہ مجھ سے شریفانہ طور پر جھگڑو اور میری ذاتیات پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ اس جائیداد میں میرے ساتھ میرے بہن بھائی شریک ہیں اگر میں صرف تیرے کہنے پر تجھے یہ جائیداد واپس لوٹا دوں تو میرے بہن بھائی کیا کہیں گے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ تو قاضی کے پاس اپنا مقدمہ لے جا۔ چنانچہ اس نے قاضی کے ہاں مقدمہ دائر کر دیا۔ قاضی نے دونوں سے بیانات سن کر مصری کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ حضرت عمرؒ نے قاضی سے کہا کہ ہم نے جائیداد پر دس لاکھ درہم خرچ کیے ہیں۔ قاضی نے غور و فکر کے بعد فیصلہ کیا کہ بقدر خرچ اس جائیداد سے آمدنی بھی ہو گئی ہے چنانچہ قاضی نے جائیداد واپس کر دی۔ حضرت عمرؒ نے قاضی کے فیصلہ کی تحسین فرمائی اور خود کھڑے ہو کر زمین کی ملکیت کی دستاویز مصری کو دے دی۔