حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جب کسی کو قاضی مقرر کرتے تو اس کے بارے میں تحقیق کروا کر ساری معلومات جمع کرتے کہ یہ تقویٰ و طہارت میں کیسا ہے؟ علم و فقہ میں اس کا کیا مرتبہ ہے؟ اس کے ظاہر و باطن میں کوئی فرق ہے کہ نہیں؟ یہ تحقیق آپ اس لیے کرتے کہ کہیں آپ کسی کے ظاہری حالات سے دھوکہ نہ کھائیں۔ جب پورا پورا اطمینان ہو جاتا تو پھر آپ اس کو قاضی یا عامل مقرر فرماتے۔
چنانچہ بلال بن ابی بردہ کو آپ نے اسی تحقیق و تفتیش سے مسترد کیا تھا۔ بلال بن ابی بردہ ایک ہوشیار ذہین، ذکی اور نہایت عقل مند شخص تھا۔ وہ بظاہر بڑا دیندار تھا لیکن اس کا باطن اتنا ہی خراب تھا۔ یہ نہایت لالچی، اور حریص تھا۔ یہ ’’خناضرہ‘‘ میں حضرت عمرؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو ان الفاظ میں خلافت کی مبارکباد دی۔ اس نے کہا: ’’امیرالمومنین! اگر خلافت کو کسی سے شرف حاصل ہوا تو آپ سے خلافت کو شرف حاصل ہوا ہے اور اگر خلافت کو کسی سے زینت ملی ہو تو آپ سے خلافت کو زینت ملی ہے۔‘‘ حضرت عمرؒ کی تعریف کرنے کے بعد یہ شخص مسجد میں گیا اور ایک ستون کے پاس کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ حضرت عمرؒ نے علاء بن مغیرہؒ سے کہا کہ اگر اس کا باطن بھی ظاہر کی طرح ہے تو یہ واقعی عراق کا حاکم ہونے کا اہل ہے اور اس کی خدمات سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ علاء نے کہا: ابھی تحقیق کرکے اس کے مکمل حالات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ اسی وقت مسجد میں گئے۔ دیکھا کہ وہ مغرب اور عشاء کے مابین لگاتار نوافل پڑھ رہا ہے۔ علاء نے بلال سے کہا: آپ جلدی سے نماز سے فارغ ہو جائیے مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ یہ سن کر وہ جلدی سے نماز سے فارغ ہوا اور علاءؒ کے پاس آ گیا۔ علاءؒ نے بات کا آغاز اس طرح کیا:
’’آپ کو پتہ ہے کہ امیرالمومنین کی نگاہ میں میرا کیا مقام ہے اگر میں امیرالمومنین کے سامنے عراق کی گورنری کے لیے آپ کا نام پیش کر دوں تو آپ مجھے کیا دیں گے۔ بلال نے کہا: میں اس کے بدلے میں آپ کو ایک سال کی تنخواہ دے دوں گا جو کہ دس لاکھ بنتی ہے۔ علاء نے کہا: آپ مجھے یہ تحریر لکھ دیں۔ حریص تو یہ تھا ہی اس لیے جلدی سے گھر گیا اور ایک تحریر لکھ کر علاء کو دے دی۔ علاء حضرت عمرؒ کے پاس یہ تحریر لے آئے۔ جب امیرالمومنین نے یہ تحریر دیکھی تو آپ نے کوفہ کے گورنر کو لکھ دیا کہ بلال نے اللہ تعالیٰ کے نام پر ہمیں دھوکہ دیا ہے اور قریب تھا کہ ہم اس کے فریب میں آ جائیں لیکن جب ہم نے اسے پگھلا کر دیکھا تو اس میں سراسر کھوٹ بھرا ہوا تھا۔