سیدنا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دل میں یہ جذبہ ہر وقت اٹھکیلیاں لیتا رہتا تھا کہ اسلام زمین کے کونہ کونہ میں پھیل جائے اور لوگ غلط راہ چھوڑ کر صحیح راہ پر گامزن ہو جائیں۔ آپ نہایت زور و شور سے علماء کو لکھتے کہ ذمیوں کو اسلام کی دعوت دو۔ ذمیوں کے مسلمان ہونے کی صورت میں اگر کوئی حاکم خزانہ خالی ہونے کی شکایت کرتا تو آپ اسے ڈانٹ دیتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے عبدالحمید بن عبدالرحمان کو لکھا: ’’تم نے مجھے لکھا ہے کہ حیرہ کے بہت سے یہودی، عیسائی اور مجوسی مسلمان ہو گئے ہیں حالانکہ ان کے
ذمے جزیہ کی بھاری رقم واجب الادا ہے۔ تم نے مجھ سے ان سے جزیہ وصول کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ کو خیر کی دعوت دینے والا بنا کر بھیجا ہے جزیہ وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا۔ اگر غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں تو ان کے مال میں صدقہ ہے جزیہ نہیں۔ ان کی میراث ان کے اعزاء و اقارب کے لیے ہے۔ اگر وہ ان میں سے نہ ہوں تو ان کی میراث مسلمانوں کے بیت المال میں جمع ہو گی اور اگر وہ کوئی خیانت کریں گے تو ان کی طرف سے ان کے مال سے دیت دی جائے گی۔