حضرت ابن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں میدان عرفات میں حضرت ابن عمرؓ کے ساتھ تھا جب وہ قیام گاہ سے چلے تو میں بھی ان کے ساتھ چلا۔ وہ امام حج کی جگہ پر پہنچے اور اس کے ساتھ ظہر او عصر کی نماز ادا کی پھر انہوں نے جبل رحمت پر وقوف فرمایا۔ میں او رمیرے ساتھی بھی ان کے ساتھ چلے یہاں تک کہ (غروب کے بعد) جب امام عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوا تو ہم بھی حضرت ابن عمرؓ کے ساتھ وہاں سے چل پڑے۔
جب حضرت ابن عمرؓ مازمین مقام سے پہلے ایک تنگ جگہ پہنچے تو انہوں نے اپنی سواری بٹھائی تو ہم نے بھی اپنی سواریاں بٹھا دئیں۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو حضرت ابن عمرؓ کے غلام نے جو سواری کو تھامے ہوئے تھے اس نے کہا نہیں یہ نماز نہیں پڑھنا چاہتے بلکہ انہیں یاد آ گیا ہے کہ حضورﷺ جب اس جگہ پہنچے تھے تو آپ قضائے حاجت کیلئے رکے تھے اس لئے یہ بھی یہاں قضائے حاجت کرنا چاہتے ہیں۔حضرت ابن عمرؓ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک درخت کے پاس جب پہنچتے تو اس کے نیچے دوپہر کو آرام فرماتے اور اس کی وجہ یہ بتاتے کہ حضورﷺ نے اس درخت کے نیچے دوپہر کو آرام فرمایا تھا۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضرت ابن عمرؓ کے ساتھ تھے، چلتے چلتے جب وہ ایک جگہ کے پاس سے گزرے تو راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہو لئے، ساتھیوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ راستہ کیوں چھوڑ دیا؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضورﷺ کو یہاں ایسے ہی کرتے دیکھا تھا اس لئے میں نے بھی ایسے ہی کیا۔حضرت نافع رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ مکہ مکرمہ کے راستہ میں (سیدھا نہیں چلے تھے بلکہ کبھی راستہ کے دائیں طرف) سواری کو موڑ لیا کرتے تھے (کبھی بائیں طرف) اور فرمایا کرتے تھے کہ میں ایسا اس لئے کرتا ہوں تاکہ میری سواری کا پاؤں حضورﷺ کی سواری کے پاؤں والی جگہ پر پڑ جائے۔