حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ظلم و جور کے انسداد کے سلسلہ میں ایک اقدام یہ کیا کہ آپؒ نے تاجروں پر پابندی لگا دی تھی کہ وہ حد سے زیادہ منافع نہ لیں لیکن آپ نے اس پر کوئی سزا مقرر نہ کی اور آپ زیادہ منافع سے نفرت تو کرتے تھے لیکن سزا نہ دیتے۔ آپ نے جب اسامہ بن زید تنوخی کو مصر کا گورنر بنایا تو اس نے اپنی گورنری کے زمانے میں موسیٰ ابن مروان سے بیس ہزار دینار کی مرچیں خریدیں اور اسامہ بن زید نے انہیں ایک گودام میں محفوظ کر دیا۔ اسامہ نے یہ مرچیں ولید بن عبدالملک کے لیے خریدی تھیں تاکہ انہیں ہدیہ کے طور پر شاہ روم کے پاس بھیجے لیکن جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ ہو گئے
تو موسیٰ بن مروان نے ان مرچوں کی قیمت کا مطالبہ کیا۔ موسیٰ بن مروان نے ایک روز حضرت عمرؒ سے درخواست کی کہ آپ حیان بن سریح کو لکھ کر دیں کہ وہ بیس ہزار دینار مجھے دے دیں جو مرچوں کی قیمت ہے۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا: یہ بیس ہزار دینار کس کے ہیں؟ اس نے کہا: میرے ہیں۔ پوچھا: تمہارے پاس اتنی رقم کہاں سے آئی؟ موسیٰ نے کہا: میں تاجر ہوں۔ آپ نے اسے ایک چھڑی سے ملا کر فرمایا: تاجر فاجر ہوتا ہے اور فاجر جہنمی ہے۔ پھر فرمایا کہ حیان کو لکھ دو کہ اس کی رقم دے دے۔ موسیٰ کہتے ہیں کہ میں اس واقعہ کے بعد آپ کے پاس نہیں گیا اور آپ نے اپنے دربان کو حکم دیا کہ وہ میرے پاس نہ آئے۔