حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں تہجد کیلئے اٹھا‘ جب نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو مجھ پر ناقابل بیان اضطراب طاری ہو گیا‘ بجائے تہجد پڑھنے کے میں ذکر الٰہی میں مشغول ہو گیا تو تب بھی طبیعت میں بے قراری محسوس کرتا رہا- آخر کار میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا مگر بے قراری کی کیفیت ختم نہ ہوئی‘ پھر میں جا کر بستر پر لیٹ گیا لیکن کیفیت جوں کی توں رہی‘ پتا نہیں چل رہا تھا کہ اس بے چینی کا سبب کیا ہے؟
آخر میں جوتے پہن کر باہر نکل آیا اور کھلی فضا میں ٹہلنے لگا‘ گھر سے کچھ ہی دور گیا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص چوغے میں ملبوس اپنے اوپر چادر اوڑھے لیٹا ہوا ہے‘ میں دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ کون شخص ہے کہ جو پچھلے پہر یہاں لیٹا ہوا ہے‘ فرماتے ہیں کہ میں جب اس کے قریب پہنچا تواس نے مجھ سے مخاطب ہو کرکہا ‘ آ گئے ہو ابو القاسم ! تم نے آتے آتے بہت دیر کر دی ‘ حضرت جنید فرماتے ہیں اس آدمی کی بات سن کر مجھ پر ایک عجیب سا رعب طاری ہو گیا‘ پر میں نے پوچھا کہ میں نے آپ کے پاس آنے کا کوئی وعدہ تو نہیں کیا تھا کہ جس کی پابندی مجھ پر فرض ہوتی‘مذکورہ شخص نے حضرت جنید سے کہا ‘ اے ابو القاسم ! آپ سچ کہتے ہیں مگر میں نے خداوند ذوالجلال کو جو دلوں کو حرکت دیتا ہے اورمقلب القلوب ہے یہ کہا تھا کہ آپ کے دل کو حرکت دے اور میری جانب بھیج دے‘ حضرت جنید نے کہا ‘ بے شک اللہ تعالی نے میرے دل کو آپ کی طرف مائل کر دیا ہے اور میں آ بھی گیا ہوں‘ اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟ وہ شخص بولا ‘ اے ابو القاسم! میں ایک سوال کا جواب آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں‘ اس سوال نے کئی دنوں سے مجھے پریشان کر رکھا ہے‘ حضرت جنید نے پوچھا آپ بتائیے‘ سوال کیا ہے؟ اس نے کہا سوال یہ ہے کہ مرض نفس کب نفس کی دوا بن جاتا ہے‘ حضرت جنید نے جواب دیا‘
جب انسان اپنی خواہشات کی مخالفت کرتا ہے تو اس حالت میں مرض نفس اس کے نفس کا علاج بن جاتا ہے‘ حضرت جنید کا یہ جواب سن کر وہ شخص اپنے دل کو مخاطب کر کے کہنے لگا‘ میں نے تجھے سات مرتبہ یہی جواب دیا تھا مگر تونے میری بات نہیں مانی اور یہی کہتا رہا کہ جب تک جنید کی زبانی نہیں سنوں گا اس وقت تک نہیں مانوں گا ‘ اب تو تونے سن لیا کہ جنید کیا کہتے ہیں ؟ یہ کہہ کر وہ شخص تیز رفتاری کے ساتھ چلا گیا‘ آپ کھڑے سوچتے ہی رہے کہ وہ شخص کون تھا اور کہاں سے آیا تھا- حضرت جنید فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے میں اسے نہیں جانتاتھا۔