اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو یہودیوں کی خفیہ تنظیم فری میسن کے بڑوں نے تقریباً ایک سو انیس سال قبل ۱۸۹۷ء میں آخری شکل دی تھی اور کئی برس کے مشوروں کے بعد اس دستاویز کا نام ”پروٹو کولز“ رکھا گیا۔ اس دستاویز کی نقل روسی پادری پروفیسر مرجائی اے ٹائلس کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی فری میسن کی ایک رہنما خاتون کے ہاتھ لگی اوراس نے ۱۹۰۵ء میں اس کو کتابی شکل میں شائع کرایا۔
اس دستاویز میں اس سازشی منصوبے کی تمام تفصیلات درج ہیں۔ امریکی اور برطانوی اسلحہ کے ساتھ یہودیوں کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی عربوں کو جلاوطن ہونا پڑا۔ عربوں کو یہ دن ان کی عاقبت نااندیشی اور عیاشی کے باعث دیکھنا پڑا، آخرکار امریکہ اور برطانیہ نے مشرق وسطیٰ میں فلسطین کی سرزمین پر اپنی پٹھو اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا خواب پورا کر دیا۔ یوں مشرق وسطیٰ کے نقشے پر درحقیقت عربوں کے سینے پر اسرائیل کی صیہونی ریاست ۱۴/ مئی ۱۹۴۸ء کو رات کے بارہ بجے قائم ہو گئی اس قوم کی حکومت اور ریاست کا من حیث القوم اس خطے میں ۵۸۶ ق م کے بعد کوئی وجود نہ تھا۔ ڈیوڈ گوریان اس کے پہلے وزیراعظم اور مشہور سائنس دان پروفیسر ڈاکٹر ویزمین اس کے پہلے صدر بنے۔ اسرائیل کے قیام کے دو گھنٹے بعد سب سے پہلے اس کے سرپرست امریکہ نے اسے تسلیم کیا۔ دو دن بعد روس نے بھی اسے تسلیم کرلیا۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم کا پہلا بیان جو کہ آج بھی ریکارڈ پر ہے، یہ دیا کہ ”دنیا میں ہمارا کوئی دشمن نہیں سوائے پاکستان کے“ چونکہ یہودی قوم یہ اچھی طرح جانتی تھی کہ نبی آخرالزماں آقا علیہ الصلواة والسلام نے پاکستان کے قیام کی خوشخبری ۱۴ صدیاں قبل ہی دے دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا ”میں عرب میں ہوں عرب مجھ میں نہیں میں ہند میں نہیں ہند مجھ میں ہے۔ مجھے ہند سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آ رہی ہیں۔“