حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو حمص میں ایک سال کا عرصہ گزر گیا مگر انہوں نے امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کو نہ کوئی خط لکھا اور نہ مسلمانوں کے بیت المال میں کوئی درہم دینار بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا اور ان کے متعلق شک گزرا چنانچہ آپ نے حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو متکوب لکھا کہ ’’جب میرا یہ مکتوب تمہارے پاس پہنچے تو فوراً میرے پاس چلے آنا اور مسلمانوں کا مال فئی (بغیر جنگ کے حاصل ہونے والا مال غنیمت) بھی ساتھ لیتے آنا‘‘۔
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے خط پڑھ کر لیپٹا اور ایک تھیلا لیا، اس میں اپنا زاد راہ ڈالا اور ایک پیالہ اور وضو کا برتن ساتھ لیا اور اپنے ہاتھ میں اپنا نیزہ پکڑا اور پیادہ پا چلتے ہوئے مدینہ پہنچے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے اسی حال میں پیش ہوئے کہ رنگ بدلا ہوا ہے، جسم لاغر اور کمزور ہے، سر کے بال پراگندہ ہیں اور سفر کی مشقت کے آثار نمایاں ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو پوچھا یہ تیری کیا حالت بنی ہوئی ہے؟ عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ میری کیاحالت دیکھتے ہیں؟ کیا آپ رضی اللہ مجھے تندرست بدن اور صاف ستھرا نہیں دیکھ رہے؟ میرے پاس دنیا کی دولت ہے جس کی گرانباری تلے دبا جا رہاہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا اپنے ساتھ کیا لائے ہو؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ مال لائے ہوں گے۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میرے پاس ایک تھیلا ہے جس میں اپنا زادِ راہ ڈالتا ہوں اور وضو کرنے اور پینے کے لئے ایک مشکیزہ ہے اور یہ میرا نیزہ ہے اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اگر دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو اس کے ذریعے لڑتا ہوں۔ خدا کی قسم! دنیا میرے سامان کے تابع ہے( یعنی میرے پاس بس یہی کچھ ہے)۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’کیا تم پیدل چل کر آئے ؟
انہوں نے کہا کہ ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’کیا وہاں کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جو تجھے سواری کے لئے کوئی جانور دے دیتا؟ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے ایسا کیا اور نہ میں نے ان سے سواری کیلئے کوئی جانور مانگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جن لوگوں کے پاس تم آئے ہو، وہ برے مسلمان ہیں؟ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ! خدا سے ڈرو، اللہ تعالیٰ نے غیبت سے منع کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’بیت المال کیلئے جو مال لائے ہو وہ کہاں ہے؟
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو کچھ بھی نہیں لایا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیوں؟ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب آپ نے مجھے وہاں بھیجا تو میں نے اس شہر میں پہنچ کر وہاں کے نیک لوگوں کو جمع کیا اور ان کو مال فئی جمع کرنے کا ذمہ دار بنایا، یہاں تک کہ جب انہوں نے مال جمع کر لیا تو میں نے وہ مال اس کی جگہ پر رکھ دیا (یعنی ضرورت مندوں میں صرف کر دیا) اگر آپ اس سلسلہ میں سے لیتے ہیں تو میں آپ کو لا دوں گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے کاتب (سیکرٹری) سے کہا کہ عمیر رضی اللہ عنہ کے لئے عہدہ کی تجدید کرو (یعنی ان کو دوبارہ عہدہ سنبھالنے کو کہا) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، نہیں نہیں، میں اس چیز کا طالب نہیں ہوں اور نہ آپ رضی اللہ عنہ کے لئے کام کروں گا اور نہ آپ رضی اللہ عنہ کے بعد کسی کا کام کرں گا۔ اے امیر المومنین! اس کے بعد حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے گھر جانے کی اجازت چاہی، آپ کا گھر مدینہ کے آس پاس ہی تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمیر رضی اللہ عنہ کا امتحان لینا چاہا۔
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف ایک آدمی ’’حارث‘‘ بھیجا۔حارث کو فرمایا کہ تم عمیر رضی اللہ عنہ کے گھر بطور مہمان قیام کرو۔ اگر عمیر رضی اللہ عنہ کو نازو نعمت میں دیکھو تو واپس چلے آنا (اور مجھے بتانا) اور اگر اس کو تنگ حالی میں پاؤ تو یہ سودینار اس کو دے دینا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حارث کو سو دینا رکی ایک تھیلی دیدی۔ حارث نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے گھر تین روز تک بطور مہمان قیام کیا، اس دوران حضرت عمیر رضی اللہ عنہ ہر روز جو کا ایک ٹکڑا نکالتے تھے۔
جب تیسرا دن ہوا تو حارث سے کہنے لگے، تو نے تو ہمیں بھوکا مار دیا۔ اگر تم یہاں سے جا سکتے ہو تو چلے جاؤ۔ اس وقت حارث نے دینار نکالے اور ان کے سامنے رکھ دیئے۔ حضرت عمیر رضی اللہ نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ حارث نے کہا کہ امیرالمومنین نے آپ کے لئے بھیجے ہیں۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ دینار ان کو واپس کر دو، ان کو میرا سلام کہنا اور عرض کرنا کہ عمیر کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت عمیرر رضی اللہ عنہ کی بیوی ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھی۔
اس نے پکار کر کہا اے عمیر رضی اللہ عنہ! یہ دینار لے لو۔ اگر آپ کو ان کی ضرورت ہوئی تو خود خرچ کر لینا وگرنہ ان دیناروں کو ان کی جگہ میں رکھ دینا۔ یہاں ضرورت مند لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ جب حارث نے عمیر رضی اللہ عنہ کی بیوی کی بات سنی تو وہ دینار حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے سامنے پھینکے اور خود چلے آئے۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے وہ دینار لئے اور ان کو چھوٹی چھوٹی چند تھیلیوں میں ڈال دیا اور اس وقت تک نہیں سوئے جب تک کہ وہ تھیلیاں ضرورت مندوں میں تقسیم نہ کر دیں
اور شہداء کی اولاد کو اس میں سے خصوصی طو رپر دیا۔ حارث واپس مدینہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا۔ اے حارث! تو نے کیا دیکھا؟ حارث نے بتایا کہ اے امیر المومنین! میں نے ان کو بڑی تنگ حالی میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر کیا ان کو دینار دے دیئے؟ حارث نے کہا کہ جی ہاں! اے امیرالمومنین! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’ اس نے ان دیناروں کا کیا کیا؟ حارث نے کہا کہ یہ تو مجھے معلوم نہیں، باقی میرا نہیں خیال کہ وہ اپنے لئے ایک درہم بھی رکھیں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ جونہی میرا یہ خط تم تک پہنچے تو فوراً میرے پاس چلے آنا۔ جب مکتوب گرامی پہنچاتو حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے لئے رخت سفر باندھا۔ مدینہ پہنچ کر امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ ان کو مرحبا کہا اور اپنے ساتھ بٹھایا۔ پھر پوچھا ’’اے عمیر رضی اللہ عنہ‘‘ ان دیناروں کا تم نے کیا کیا؟
عمیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے جو کرنا تھا کیا، آپ کیوں سوال کرتے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تجھے قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتاؤ تو نے ان دیناروں کا کیا کیا؟ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے ان کو اپنے لئے ذخیرہ کر لیا ہے تاکہ میں ان سے اس دن انتفاع کروں جس دن نہ مال نفع دے گا اور نہ اولاد۔ (یہ سنتے ہی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تجھ پر رحم کرے۔ پھر حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے لئے غلے اور دو کپڑوں کا حکم دیا۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیرالمومنین! غلہ کی تو مجھے ضرورت نہیں، کیونکہ میں اپنے گھر میں دو صاع جو کے چھوڑ کر آیا ہوں، فراخی رزق تک ہم اس کو کھاتے رہیں گے ہاں، البتہ یہ کپڑے لے لیتا ہوں، کیونکہ فلاں کی ماں (مراد ان کی بیوی) کے کپڑے کافی پرانے اور بوسیدہ ہو گئے ہیں کہ اس کے برہنہ ہونے کا خطرہ ہے۔
کچھ عرصہ کے بعد جب حضرت عمیر کا انتقال ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی وفات کا بیحد رنج و غم ہوا۔ اظہا حسرت کرتے ہوئے فرمایا کاش! میرے پاس عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ جیسے آدمی ہوتے میں ان سے مسلمانوں کے انتظامی معاملات میں معاونت لیتا۔