ایک رات حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنا دُرّہ لئے نکلے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے ایک گھر میں آگ کی روشنی دیکھی، آپ رضی اللہ عنہ اس گھر کے پاس پہنچے اور اس میں داخل ہوئے تو دیکھا ایک بوڑھا شخص بیٹھا ہے جس کے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ اس کے سامنے شراب رکھی ہے اور ایک لونڈی گانا گا رہی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر دھاوا بولا اور فرمایا میں نے اس بوڑھے سے زیادہ قبیح منظر رات کے وقت نہیں دیکھا جو بوڑھا اپنی اجل کا انتظار کر رہا ہے۔ اس آدمی نے اپنا سر اٹھایا اور کہا کہ اے امیرالمومنین! آپ نے جو حرکت کی ہے وہ زیادہ قبیح ہے! آپ نے ٹوہ لگائی۔ حالانکہ آپ نے خود ٹوہ لگانے سے منع کیا ہے اور (دوسرا یہ کہ) آپ بلااجازت داخل ہوئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم سچ کہتے ہو، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے نکلے، آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور رنجیدہ خاطر ہو کر کہنے لگے عمر! تیری ماں تجھ پر روئے، اگر پروردگار نے معاف نہ کیا تو کیا بنے گا۔ وہ ان سے چھپتا پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ لیا ہے وہ ضرور سزا دیں گے۔ وہ بوڑھا شخص ایک عرصہ تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں نہیں آیا۔ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کی ایک جماعت کے ہمراہ بیٹھے تھے کہ اچانک ایک آدمی آیا جیسے وہ اپنے آپ کو چھپا رہا ہو اور مجلس کے آخر میں آ کر بیٹھ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس پر نظر پڑ گئی، فرمایا کہ اس بوڑھے آدمی کو میرے پاس لاؤ۔ ایک آدمی اس کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ امیرالمومنین کے پاس چلو، وہ آدمی (بوڑھا) اٹھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خوف سر پر سوار تھا کہ وہ ضرور اس کو سزا دیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔
اس کو اپنے قریب کرتے رہے یہاں تک کہ اپنے ساتھ بٹھا لیا اور آہستہ آواز میں اس کے کان میں کہا کہ سنو! اس ذات کی قسم جس نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے لوگوں میں سے کسی کو بھی اس واقعہ کی خبر نہیں دی جس کا میں نے مشاہدہ کیا تھا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں بتایا جو کہ میرے ساتھ تھے۔ اس آدمی نے بھی کہا کہ اے امیر المومنین! اپنا کان قریب کیجئے۔
پھر کان میں کہنے لگا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے بھی وہ کام دوبارہ نہیں کیا یہاں تک میں اپنی اس جگہ پر بیٹھ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے اللہ اکبر کہا، لوگ نہ سمجھے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کس وجہ سے تکبیر کہی۔