مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عمرؓ ایک مرتبہ شاگردوں کے ساتھ تفریح کی غرض سے مدینہ منورہ کے نواح میں نکلے، کھانے کے لئے دستر خوان بچھایا گیا تو قریب سے ایک چرواہے نے گزرتے ہوئے سلام کیا، حضرت ابن عمرؓ نے اسے کھانے کی دعوت دی تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرا روزہ ہے، فرمایا ’’اس قدر شدید گرمی میں؟‘‘
کہنے لگا ’’تیزی کے ساتھ زندگی کے ان گزرتے ہوئے دنوں کو اسی طرح قیمتی بنایا جا سکتا ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے امتحاناً اس سے فرمایا ’’ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں فروخت کر دیں، ہم آپ کو اس کی قیمت بھی ادا کر دیں گے اور افطار کرنے کے لئے گوشت بھی دیدیں گے‘‘ مال کی محبت عجب روگ ہے جسے لگ جائے بڑی مشکل سے وہ اس سے پناہ حاصل کرتا ہے، یہاں آ کر بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگانے لگ جاتے ہیں، دن رات سربسجود ایسے عابد بھی ہیں کہ جہاں معاملہ دنیا اور مال کا آ گیا، ان کا حب مال ان کے تقویٰ کو شکست دے گیا، میدان جہاد میں جان ہتھیلی پر رکھ کر سرفروشانہ کارنامے انجام دینے والے ایسے جانباز مجاہد بھی بکثرت پائے جاتے ہیں کہ جب مال غنیمت کی تقسیم کا مرحلہ شروع ہوا اس میں کہیں دین اور دنیا کے تقاضے مختلف ہو گئے اور وہ محبت مال کے قتیل بن گئے۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا! ایک بکری آقا کو نہ ملی تو وہ کیا بگاڑ سکتا ہے (اس کے گم ہونے کا بہانہ کیا جا سکتا ہے) کہنے لگا ’’اللہ کہاں جائے گا؟‘‘ ان کے اس جملے سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور بار بار اس کا یہ جملہ دہراتے ہیں ’’اللہ کہاں جائے گا، اللہ کہاں جائے گا‘‘۔ مدینہ منورہ واپس ہوئے تو مالک سے وہ غلام چرواہا اور ساری بکریاں خریدیں، غلام کو آزاد کیا اور بکریاں اسے ہبہ کیں۔