لڑائی ختم ہوئی، تلواروں کی آوازیں بند ہوئیں، ہر طرف مقتولین کی نعشیں اور اعضاء بکھر گئے۔ ایمان و اسلام کاعلَم بلند ہوا اور مسلمانوں کی فتح کا اعلان ہوا تو مجاہدین میدان جنگ سے مال غنیمت جمع کرنے لگے۔ ان شہ سواروں میں ایک بڑا جنگ جو اور بہادر شہسوار بھی تھا، اس کو دشمن کی طرف سے بڑے زخم لگے تھے، حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے اس کو مال غنیمت میں سے اس کا حصہ دیا لیکن پورا نہیں دیا۔
اس مجاہد نے لینے سے انکار کیا اور مطالبہ کیا کہ اسے اس کا سارا حصہ دیاجائے وہ رائی کا ایک دانہ بھی نہیں چھوڑے گا۔ اس پر حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس کو بیس درے لگائے اور اس کا سر مونڈ دیا۔ اس آدمی نے زمین پربکھرے ہوئے اپنے بال اکٹھے کئے اسے ایک تھیلی میں ڈالا اور مدینہ منورہ کی طرف چل پڑا۔ جب امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو اپنے وہ بال تھیلی سے نکالے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سینہ پر دے مارے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، کیا بات ہے؟ اس آدمی نے اپنا سارا قصہ ذکر کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سینہ آتش غضب سے بھڑک اٹھا اور حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا ’’دعا و سلام کے بعد۔ فلاں بن فلاں نے مجھے ایسے بتایا ہے میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر تو نے یہ کام لوگوں کے بھرے مجمع میں کیا ہے تو تو بھی اس کے لئے لوگوں کے مجمع میں بیٹھ، تاکہ وہ تجھ سے اپنا بدلہ لے، اور اگر تو نے یہ کام خلوت میں کیا ہے تو تو بھی اس کے لئے خلوت میں بیٹھ تاکہ وہ تجھ سے بدلہ لے سکے۔