جہانگیر بادشاہ اپنی ’’توزک‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’ایک سلطان گرمی کے موسم میں ایک باغ کے دروازہ پر پہنچا، وہاں ایک بوڑھا باغبان کھڑا تھا، اس کو دیکھ کر سلطان نے پوچھا، کیا اس باغ میں انار ہے؟ باغبان نے کہا ’’ہے‘‘ سلطان نے کہا ’’ایک پیالہ انار کا رس لاؤ‘‘ باغبان کی ایک لڑکی صورت کے جمال اورسیرت کے حسن سے آراستہ تھی۔ باغبان نے اس سے انار کا رس لانے کو کہا،
وہ گئی اور ایک پیالہ بھر کر انار کارس لے آئی۔ پیالہ پر انار کی کچھ پتیاں رکھی ہوئی تھیں، سلطان نے اس کے ہاتھ سے پیالہ لیا اور پورا پی گیا، پھر لڑکی سے پوچھا، پیالہ کے رس کے اوپر تم نے پتیاں کس لئے رکھ دی تھیں؟ لڑکی نے عرض کیا، اس گرمی میں آپ پسینہ میں غرق تھے، رس کا ایک سانس میں پی جانا آپ کے لئے مناسب نہ تھا، میں نے احتیاطاً اس پر پتیاں ڈال دی تھیں کہ آپ آہستہ آہستہ اس کو نوش جان فرمائیں، سلطان کو یہ حسن ادا بہت پسند آئی، اس کے بعد اس باغبان سے پوچھا کہ تم کو ہر سال اس باغ سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ اس نے جواب دیا ’’تین سو دینار‘‘ سلطان نے پوچھا، حکومت کو کیا دیتے ہو؟‘‘ باغبان نے کہا، میرا بادشاہ درخت سے کچھ نہیں وصول کرتا ہے بلکہ کھیتی سے عشر لیتا ہے۔ سلطان کے دل میںیہ خیال گزرا کہ میری مملکت میں بہت سے باغ اور درخت ہیں اگر باغ سے بھی عشر لیا جائے تو کافی رقم جمع ہو سکتی ہے اور رعیت کو بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا اس لئے میں حکم دوں گا کہ باغات کے محصولات سے بھی خراج لیا جائے یہ سوچ کر اس نے انار کا رس پھر پینے کو مانگا۔ لڑکی رس لانے گئی تو بہت دیر میں آئی، جب پایلہ لائی تو سلطان نے کہا کہ پہلی بار تم گئیں تو بہت جلد آئیں، اس بار دیر بھی کی اور رس بھی کم لائیں، لڑکی نے کہا ’’پہلی بار ایک انار میں پیالہ بھر گیا تھا،
اس مرتبہ میں نے پانچ چھ انار نچوڑے، پھر بھی رس پورا نہیں ہوا‘‘ یہ سن کر سلطان کو حیرت ہوئی، باغبان نے عرض کیا ’’محصول کی برکت بادشاہ کی نیک نیت پر منحصر ہے، میرا خیال ہے کہ آپ بادشاہ ہیں، آپ نے جس وقت باغ کی آمدنی مجھ سے پوچھی، اسی وقت آپ کی نیت میں تبدیلی پیدا ہوئی اور پھل سے برکت چلی گئی‘‘۔ یہ سن کر سلطان متاثر ہوا اور دل سے باغ کی آمدنی کا خیال دور کر دیا، اسکے بعد پھر انار کا رس مانگا، لڑکی گئی اور جلد ہی پیالہ بھر کر انار کا رس لے آئی، تب سلطان نے باغبان کی فراست کی داد دی، اپنے دل کی بات بتائی اور اس کی لڑکی کا خواستگار ہوا‘‘۔