مولانا نور احمد صاحبؒ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور دارالعلوم کراچی کے ناظم اول اور بانیوں میں سے تھے، ان کی سوانح حیات ان کے صاحبزادے مولانا رشید اشرف صاحب نے لکھی ہے، وہ ایک رشتے کے سلسلے میں ان کی دینی حساسیت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں ’’راقم الحروف کی ہمشیرہ کا ایک اچھا رشتہ آیا، لڑکا کینیڈا میں تھا، تعلیم یافتہ، خوب رو، حسب نسبت اور وجاہت والا،
اس کے والدین جو ہمارے بعض واقف کاروں کے رشتہ دار تھے پاکستان میں بہتر سے بہتر رشتہ کیلئے کوشاں تھے، تلاش و جستجو کے بعد نظر انتخاب ہمارے گھرانے پر پڑی، بڑے چاؤ سے رشتہ منظور کیا گیا، کینیڈا میں ہونے کی بناء پر لڑکا اپنے کاموں کی نوعیت کے لحاظ سے محدود وقت ہی کے لئے پاکستان آ سکتا تھا اس لئے اس کے بارے میں یہ طے تھا کہ وہ نکاح سے ایک دو روز قبل پاکستان آئے گا اور چند ہی روز بعد اہلخانہ کے ساتھ واپس کینیڈا چلا جائے گا۔ ان حالات کی بناء پر راقم کے والد ماجدؒ نے احتیاطاً یہ شرط عائد کی تھی کہ لڑکے سے ملاقات ہونے پر کوئی بے اطمینانی کی بات سامنے آئی تو عین موقع پر بھی عذر کیا جا سکتا ہے چونکہ ظاہری اسباب میں بے اطمینانی کی وجہ نہ تھی، اس لئے فریق آخر نے یہ شرط منظور کر لی اگرچہ مجموعی حالات کے لحاظ سے کسی بھی فریق کے حاشیہ خیال میں یہ بات نہ تھی کہ یہ رشتہ نہ ہو سکے گا، اس لئے دونوں طرف سے تیاریاں مکمل تھیں۔ دو دن قبل لڑکا کینیڈا سے آیا، حضرت والد صاحبؒ سے ملاقات ہوئی، حسن صورت، ظاہری وجاہت، طرز تکلم اور آداب معاشرت کے لحاظ سے ہمارے تصورسے بہتر نکلا، دل کو اطمینان ہوا لیکن اس سے بات چیت کے بعد پردہ کے بارے میں آزاد خیالی محسوس ہوئی جس سے فکر ہوئی، دینی تصلب کی بناء پر اس سلسلے میں حضرت والد صاحبؒ کی تشویش دو چند تھی،
بعض اعزہ نے اطمینان دلایا کہ خاندان سے جڑنے کے بعد یہ کمی بھی دور ہو جائے گی اس لئے اتنے اچھے رشتے کو رد کرنا مناسب نہیں لیکن دینی معاملات میں حساس ہونے کی بناء پر حضرت والد صاحبؒ کی تشویش رفع نہ ہوئی، فرمانے لگے کہ کینیڈا کے ماحول میں اس آزاد خیالی کے کم ہونے کے مقابلے میں بڑھنے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ بالآخر اپنی حمیت دینی کی بناء پر نکاح سے ایک دنقبل حضرت والد صاحب نے یہ رشتہ رد فرما دیا، اس تقریب نکاح کی تمام تیاریاں مکمل تھیں،
شادی کارڈ تقسیم کئے جا چکے تھے، فریقین کی تقریبات کے لئے ہال بک تھے، طعام وغیرہ کے انتظامات مکمل ہو چکے تھے، اس فیصلے کی بناء پر ہر طرح کی قربانی دینی پڑی لیکن حضرت والد صاحبؒ کی غیرت ایمانی نے سب کو برداشت کیا۔ شاید اسی کی برکت تھی کہ انہی ہمشیرہ کا بعد میں مدینتہ الرسولﷺ سے دہلوی خاندان کے ایک حافظ و عالم کا رشتہ آیا جو منظور کیا گیا‘‘۔
حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں ایک شخص نے آ کر کہا ’’میری ایک بیٹی ہے، مجھے اس سے بہت محبت ہے، مختلف لوگوں نے پیغام نکاح بھیجا ہے، آپ بتائیں میں اس کے لئے کیسے آدمی کا انتخاب کروں؟‘‘ حضرت بصریؒ نے فرمایا ’’اس کی شادی ایسے آدمی سے کرائیے جو اللہ سے ڈرتا ہو، متقی ہو، کیونکہ اس طرح کے آدمی کو اگر آپ کی بیٹی سے محبت ہو گی تو اس کی عزت کرے گا، نفرت ہو گی تو اس پر ظلم نہیں کرے گا‘‘۔