مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے متعلق لکھتے ہیں ’’دلی پہنچنے کے بعد مولانا نے ابتداء قیام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مہمان خانہ واقع قرول باغ میں کیا تھا یہ جگہ میرے پڑوس میں تھی۔ اس لئے مغرب کے بعد اکثر مولانا کی خدمت میں حاضری ہوتی تھی۔ ایک دن میں مولانا کی خدمت میں حسب معمول حاضر ہوا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی گفتگو ہوتی رہی۔
جب میں رخصت ہوا تو مولانا بھی ساتھ باتیں کرتے ہوئے کمرہ سے نکل آئے اور سڑک پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ اتنے میں دیکھا کہ ایک بڑی موٹر کار ہمارے پاس آ کر رکھی اور موٹر کار کا دروازہ کھلا تو اس میں سے کراچی کے سیٹھ عبداللہ ہارون باہر نکلے۔ انہوں نے مولانا کو سلام کیا اور کہا کہ مولانا کراچی میں ایک ضروری کام ہے جس کے لئے آپ کو میرے ساتھ کراچی چلنا ہو گا، مولانا نے پوچھا ’’کب‘‘ سیٹھ صاحب نے کہا ’’بس ابھی‘‘۔ سیٹھ صاحب کا یہ کہنا تھا کہ مولانا فوراً لپک کر ان کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے، نہ کمرہ میں گئے اور نہ وہاں سے کوئی چیز لی اور نہ کمرہ کا دروازہ بند کیا، میں ان کے اس انداز پر حیران رہ گیا مگر واقعہ یہ ہے کہ مولانا اگر کمرہ میں واپس جاتے بھی تو لیتے کیا۔ وہاں ان کا سامان تھا ہی کیا۔ وہاں جو بستر پڑا ہوا تھا یا کچھ برتن رکھے ہوئے تھے وہ جامعہ کے مہمان خانہ کے تھے، مولانا کا کچھ نہ تھا‘‘۔قرول باغ کے مہمان خانہ میں چند روز قیام فرمانے کے بعد مولانا جامعہ نگر اوکھلا میں منتقل ہو گئے، اس زمانہ میں مولانا کا معمول یہ تھا کہ جمعہ کی نماز پابندی کے ساتھ اوکھلے سے آ کر دلی کی جامع مسجد میں ادا کرتے تھے، اس سلسلہ میں ایک مرتبہ کیا ہوا؟ مولانا سندھی حسب معمول اوکھلے سے دلی آئے، جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کی اور پھر ادارہ شرقیہ میں تشریف لا کر حسب معمول ’’حجتہ اللہ البالغتہ‘‘ کا درس دیا،
اس وقت چہرہ پر نہ تھکان کا کوئی اثر اور نہ آواز میں کسی قسم اضمحلال اور ضعف، کمال بشاشت اور توانائی سے تقریر کیاور اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو اس میں بھی پوری توجہ اور حاضر حواسی کے ساتھ حصہ لیا۔ اتنے میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تو ہم سب کے ساتھ نماز ادا کی۔ اس کے بعد مولانا رخصت ہو گئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد کسی ضرورت سے پتلی قبر کی طرف گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مولانا ایک بھٹیارہ کی دکان پر کھانا کھا رہے ہیں۔
کھانا بہت معمولی یعنی دوآنہ کا سالن اور ایک آنہ کی روٹی، میں نے کہا، حضرت بے وقت کھانا کیسا؟ فرمایا ’’اوکھلے میں کھانا تیار نہ تھا اگر انتظار کرتا تو جامع مسجد میں نماز نہ پڑھ سکتا۔ اس لئے کھانا کھائے بغیر ہی چلا آیا تھا‘‘۔یہ تو خیر ہوا ہی، اس سے بھی زیادہ عجیب اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس واقعہ کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یہ گرمیوں کے کسی مہینہ میں پیش آیا تھا اور چونکہ مولانا کے پاس اوکھلے اور دلی کی آمدورفت کے لئے بس کا کرایہ ادا کرنے کے واسطے پیسے نہ تھے۔
اس لئے اس روز مولانا سخت تپش اور گرمی کے عالم میں اوکھلے سے دلی آٹھ میل پا پیادہ آئے اور اسی طرح آٹھ میل پاپیادہ تشریف لے گئے۔ اس کے متعلق بھی مولانا نے خود ہم سے کچھ کہا اور نہ چہرہ دیکھ کر کوئی سمجھ سکا بلکہ جامعہ نگر کے ایک صاحب نے جو بس میں سفر کر رہے تھے، مولانا کو پیدل آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ان سے جب مجھ کو یہ معلوم ہوا تو میں نے مولانا سے دریافت کیا اور مولانا نے اس کی تصدیق کی تو اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ چونکہ اس روز مولانا کو پیدل آنا تھا اس لئے دلی میں اوکھلے سے ان کو بہت پہلے روانہ ہونا تھا اور چونکہ اس وقت تک کھانا تیار نہ ہوا تھا، اس لئے دلی میں عصر کے بعد کھانا کھایا اور چونکہ جیب میں صرف تین آنہ پیسے تھے جو بس کے کرایہ کے لئے کافی نہیں ہو سکتے تھے اس لئے ان پیسوں سے کھانا کھایا اور اوکھلے سے دلی تک کا سفر پیدل کیا۔