پیر‬‮ ، 22 ستمبر‬‮ 2025 

کردار کا سید

datetime 17  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شاہ جی کا گھرانہ جب سے پڑوس میں آباد ہوا تھا محلے میں غیر محسوس انداز سے چند اچھی روایات کا پھر سے احیاء ہوا تھا ۔ لیکن اس میں سارا کمال ان کے چھوٹے سے کم سن برخودار زین کا تھا۔ وہ تقریبا” ہر روز کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز یا سالن بھلے تھوڑی سی مقدار ہی میں صحیح لیکن ہمسائے میں بانٹنے آتا ۔ بڑی معصومیت سے پلیٹ پکڑاتے ھوئے کہتا ۔۔

” نانا جی نے بھیجا ہے ” ہم شکریہ سے رکھ لیتے اور نانا جی کو سلام کا کہتے وہ فورا” وعلیکم السلام کہہ کر پلٹ جاتا۔ کبھی کسی کی ولادت کا ختم کبھی کسی کی شہادت کا۔ ہم بڑوں تک کو معلوم نہ ہوتا لیکن متانت سے رکھ لیتے۔ کبھی ویسے ہی تحفتہ” کہ ہم نے بوٹی چاول بنائے تھے۔ آپ بھی لیں۔ بہت پیارا اور حسین سا معصوم چہرہ تھا لیکن ماں یا نانا کی تربیت بھی خوب تھی ۔ اب شرما شرمی اور بھی کچھ گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ مل بانٹ کر کھانا شروع ھو گئے تھے اور بچے ہی نہیں ہم بڑے بھی سلام کرنے میں پہل کرنے لگے تھے۔ لیکن ہم نے اس کے والد کے سواء کم ہی کسی کو دیکھا تھا۔ سید تھے تو پردہ تو سخت تھا ہی ۔ لیکن نانا جی بھی کبھی چھت یا گلی میں نظر نہ آئے ۔ چھت پر بھی وہی بچہ پرندوں کو دانہ دنکا ڈالتا نظر آتا۔ لیکن آج تو کمال ہی ھو گیا۔ میں چھوٹے شاہ جی سے پلیٹ پکڑ ہی رہا تھا کہ زلزلہ آگیا۔ زلزلہ شدید تھا ۔ میں اور باقی محلے دار تیزی سے باہر کو لپکے ۔ لیکن چھوٹے شاہ جی نے اچانک عجب حرکت کی۔ اس بچے نے بڑی زور سے زمین پر داہنا پاوں اٹھا مارا اور تحمکانہ لہجے میں گویا ھوا ۔ اے زمین مت کر ! دیکھتی نہیں … ہم کھڑے تو ہیں ؟ زلزلہ تو خیر رک ہی گیا لیکن ہمیں ہنسی آگئی ۔ ہم سب نے ننھے زین کو گھیر لیا ۔ وہ گھر کو پلٹ رہا تھا کہ میں نے پوچھا ۔ شاہ جی اگر یہ آپ کی بات نہ مانتی تو ؟وہ بے نیازی سے بولا ۔ کیسے نہ مانتی ! میں نے کہا پھر بھی اگر نہ مانتی تو ؟ نہیں نانا جی نے بتایا ہے ایسا نہیں ہو سکتا ۔

عجب یقین و اطمینان تھا لہجے میں اور اک شان بے اعتنائی جو ہم بڑوں کو اب چبھ رہی تھی ۔ آج اپنے نانا جان سے تو ملواو ۔ہیں ؟ اب وہ تیزی سے پلٹا تھا اور حیران ہماری جانب دیکھ رہا تھا آپ لوگ نانا جان سے نہیں ملے ؟ عجب بے یقینی حیرت و اچنبا تھا اس لہجے میں! شیخ صاحب بولے یار ہمیں تو وہ کبھی باہر نظر ہی نہیں آئے ؟ آپ سب ان کو نہیں دیکھتے ؟ وہ حیران و پریشان ھو گیا تھا ۔

تاسف اور شدید درد تھا اس لہجے میں ۔ کیونکہ ہم سب یک زبان بولے تھے ۔ نہیں ۔ اچھا۔ پھر آپ لوگ مدینہ منورہ ہی ھو آئیں ۔ ایک سنسنی کی لہر تھی جو میرے رگ و پے میں دوڑ گئی۔ یہ زلزلہ نہیں بھونچال تھا جو میرے تقوی کے بت کے درپے ہے ۔ میں میں نہیں رہا۔ وہ ذات کا ہی نہیں کردار کا بھی سید نکل آیا تھا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



رونقوں کا ڈھیر


ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…