شیخ الاسلام حضرت علامہ ظفر احمدعثمانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانہ میںحج کے بعد مدینہ منور ہ گیا ۔ ہم لوگوں نے کھانا کھانے کے بعد دستر خوان کو لے کر ایک ڈھیر پر جھاڑ دیا تاکہ روٹی کے بچے ٹکڑوں اور ہڈیوں کو جانور کھا جائیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک خوبصورت نو سال کا بچہ ان ٹکڑوں کو چن چن کر کھا رہا ہے مجھے سخت افسوس ہوا۔
بچے کو ساتھ لے کر قیام گاہ میں آیا اور اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا کیونکہ میں ایسی ہستی کے شہر میں تھا جو غریبوں کا والی اور غلاموں کا مولیٰ تھا۔۔ میرے اس برتائو کو دیکھ کر بچہ بے حد متاثر ہوا ۔ میں نے چلتے وقت اس سے کہا کہ بیٹے تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں یتیم ہوں۔۔میں نے کہا بیـٹے میرے ساتھ ہندوستان چلو گے؟ وہاں میں تم کو اچھے اچھے کھانے کھلائوں گا۔۔ عمدہ عمدہ کپڑے پہنائوں گا۔۔ اپنے مدرسے میں تعلیم دوں گا۔۔ جب تم عالم فاصل ہو جائے گے تو میں خود تم کو یہاں لے کر آئوں گا اور تمہیں تمہاری والدہ کے سپرد کردوں گا۔ تم جائو اپنی والدہ سے اجازت لے کر اائو۔ لڑکا بہت خوش ہوا اور اچھلتا کودتا اپنی والدہ کے پاس گیا۔۔ وہ بیچاری بیوہ دوسرے بچوں کے اخراجات سے پہلے ہی پریشان تھی اس نے فوراََ اجازت دے دی۔ بچہ فوراََ آیا اور مولانا کو بتایا کہ میں آپ کے ساتھ جائوں گا۔ میری ماں نے اجازت دے دی ہے پھر پوچھنے لگا کہ آپ کے شہر میں چنے ملتے ہیں؟مولانا عثمانیؒ نے بتایا یہ ساری چیزی وافر مقدار میں تمہیں ملیں گی۔۔ مولانا کا بیان ہے کہ میری انگلی پکڑے پکڑے مسجد نبوی ﷺ میں وہ میرے ساتھ آیا اور ٹھٹھک کر رہ گیا۔۔
سرکار دو عالم ﷺ کے روضہ مبارک کو دیکھا اور مسجد کے دروازے کو۔۔ اور پوچھا کیا کہ بابا یہ دروازہ اور روضہ بھی وہاں ملے گا؟ میں نے اس سے کہا کہ بیٹا اگر یہ وہاں مل جاتا تو میں کیوں آتا۔۔ لڑکے کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔۔ میری انگلی چھوڑ دی، بابا تم جائو۔۔ اگر یہ نہیں ملے گا تو میں ہر گز ہر گز اس دروازے کو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔۔ بھوکا رہوں گا۔۔ پیاسا رہوں گا۔۔ اس دروازہ کو دیکھ کر میں اپنی بھوک اور پیاس بجھاتا رہوں گا۔ جس طرح آج تک بجھاتا رہا ہوں۔۔ یہ کہہ کر بچہ رونے لگااور اس کے عشق کو دیکھ کر میں بھی رونے لگ گیا۔