جمعہ‬‮ ، 25 اپریل‬‮ 2025 

جب تک میل کچیل دور نہ ہو

datetime 11  اپریل‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

1976 کی بات ہے، حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی نے کہا کہ مجھے مسکین پور شریف میں چار مہینے رہنے کی سعادت حاصل ہوئی، اس وقت جہاں مسجد ہے پہلے وہاں عمارت تھی، کچھ کمرے تھے، اور اس سے متصل اندازاً کوئی پانچ چھ فٹ اونچی دیوار تھی جس میں نل لگے تھے جس سے مدرسے کے طلبہ غسل کیا کرتے تھے، چونکہ دیوار اتنی زیادہ اونچی نہیں تھی،

تو کئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ کوئی طالب علم نہا رہا ہوتا اور جب دیکھتا کہ قریب سے کوئی گزر رہا ہے تو وہ اندر سے پانی اچھالتا، جس سے گزرنے والوں پر پانی پڑ جاتا اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ گزرنے والا باہر سے کوئی کنکر پھینک دیتا جس سے نہانے والے پریشان ہوتے تو کچھ طلباء نے ایک استاد صاحب سے مل کر یہ فیصلہ کیا، کہ ہم ان دیواروں کو اونچی کر دیں، چنانچہ ایک بوری سیمنٹ، کچھ اینٹیں اور ریت لائے اور جمعہ کے دن ان طلباء نے خود ہی اینٹیں جوڑ کر اس کو دو فٹ اونچی کر دیا، دو فٹ دیوار اونچی ہونے سے نہانے والے بھی خوش، اور باہر والے بھی خوش، ایک طالب علم نے کہا کہ پتہ نہیں یہ دیوار کتنی مضبوط بنی ہے؟ اس نے اوپر والے حصے کو ہاتھ لگایا تو وہ ہلنے لگی، اس نے دوسروں کو کہا، یہ تو ہلتی ہے، دوسرے نے بھی دیکھا، پتہ چلا کہ نیچے کی دیوار الگ اور اوپر کی الگ، چند نئی اینٹیں آپس میں تو جڑ گئی تھیں، لیکن پرانی دیوار کے ساتھ وہ جڑی نہیں تھی جب کسی اور نے ہاتھ لگایا تو اوپر کی دیوار نیچے گر گئی، طلبہ پریشان ہوئے کہ سیمنٹ بھی گئی، اینٹیں بھی گئیں اور مقصد بھی حل نہ ہوا تو کسی استاد نے میرے بارے میں بتایا کہ اس کا تعلق انجینئرنگ سے ہے، اس سے پوچھو، ایک طالب علم آیا، مجھے کہنے لگا کہ آپ مہربانی کرکے بتائیں کہ یہ دیوار کیوں گر گئی؟

میں نے آ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ نیچے کی دیوار مٹی گارے سے بنی ہوئی تھی اور اس کی جو سب سے اوپر کی اینٹ تھی اس کے اوپر بھی گارا اور مٹی تھی، انہوں نے گارا ہٹائے بغیر اوپر پانی ڈالا اور اسی پر سیمنٹ رکھ کر اینٹیں رکھ دیں، مٹی نے جوڑ ملنے نہیں دیا، میں نے طلبہ سے کہا ایک اسٹیل کا برش لے آئیں، وہ لائے، میں نے کہا اوپر کی جو اینٹ ہے اس کو ذرا رگڑو،

دو طالب علم لگے اور انہوں نے اوپر کی اینٹ کو خوب رگڑ کر صاف کر دیا، مٹی اور گارے کا نام و نشان ختم ہو گیا تو انہی کے ہاتھوں سے سیمنٹ رکھوایا، اینٹیں لگوائیں تو اینٹ پرانی دیوار سے بالکل چپک گئی، دونوں کا جوڑ پختہ ہوگیا، طلباء خوش بھی ہوئے اور حیران بھی، ان کے استاد ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اس میں راز کیا تھا کہ ہم نے بھی دیوار بنائی، تو الگ ہو گئی، آپ نے بنائی تو جوڑ پکا بیٹھ گیا، میں نے بتایا کہ اوپر جو میل تھی،

اس نے جوڑ بیٹھنے نہیں دیا، بلکہ دونوں کے درمیان رکاوٹ بن گئی۔آج جب یہ بات یاد آ رہی ہے، تو مضمون کے متعلق یہ بات سمجھ میںآتی ہے کہ بندہ اللہ سے دل کا تعلق جوڑنا چاہتا ہے، مگر گناہ جو میل ہے، وہ جڑنے نہیں دیتا، جوڑ بیٹھنے نہیں دیتا، اس لیے ہمارے اکابر ہر آنے والے سے پہلے گناہوں کے چھوڑنے کا مجاہدہ کراتے ہیں کہ گناہ جب چھوڑو گئے تو تھوڑی محنت کے ساتھ بھی تمہارا جوڑ بن جائے گا، اللہ رب العزت پاک ہے اس کے وصل میں گناہوں کی ناپاکی کبھی درمیان میں نہیں رہ سکتی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



پانی‘ پانی اور پانی


انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…