ہفتہ‬‮ ، 12 اپریل‬‮ 2025 

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

datetime 10  اپریل‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے کی کوششیں تین کرداروں کے گرد گھومتی ہیں‘ پہلے کردار کا نام چودھری تنویر احمد ہے‘ یہ سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں‘ 1988ء میں امریکا گئے‘ ریستوران کا بزنس شروع کیا‘ اللہ نے کرم کیا اور ان کا شمار چند برسوں میں خوش حال امریکن پاکستانیوں میں ہونے لگا‘یہ ہیوسٹن میں رہتے ہیں‘ ہیوسٹن کے سب سے بڑے کرکٹ کمپلیکس کے مالک ہیں‘کرکٹ کلب بھی ’’اون‘‘ کرتے ہیں‘ اپنی فوڈ چین چلا رہے ہیں اور ٹرانسپورٹیشن کمپنی کے مالک بھی ہیں‘ امریکا اور پاکستان دونوں ملکوں میں ویلفیئر کے کام کرتے ہیں‘ عمران خان کے ساتھ ان کی پرانی دوستی ہے‘

خان نے انہیں 2019ء میں نارتھ امریکا میں پارٹی کا ڈپٹی سیکرٹری بھی بنایا تھالیکن یہ کیوں کہ سچے‘ کھرے اور منہ پر بات کرنے والے انسان ہیں لہٰذا یہ عہدہ زیادہ دیر تک ان کے پاس نہ ٹک سکا‘ شوکت خانم اور پی ٹی آئی دونوں کے پرانے ڈونرہیں‘ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی خان سے رابطے میں رہے‘ ان کو خان کی جارحانہ سیاست پر ہمیشہ اعتراض رہا‘ ان کا خیال تھا (اور آج بھی ہے) پارٹی کو سیاسی جماعت نظر آنا چاہیے باغی گروپ نہیں‘ پی ٹی آئی نے 30 اکتوبر 2022ء کو آزادی مارچ کیا‘ مارچ کے دوران خاتون صحافی صدف نعیم کنٹینر سے گر کر فوت ہوگئی‘ تنویر احمد ان دنوں لاہور تھے‘ خان انہیں ساتھ لے کر 31 اکتوبر کو مرحومہ کے گھر گئے تھے یوں انہیں ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع مل گیا‘ تنویر صاحب نے خان کو سمجھایا ’’آپ غلط سائیڈ پر چل نکلے ہیں‘

آپ کو نقصان ہو گا‘ احتجاج کی سیاست سے آج تک کسی جماعت کو فائدہ نہیں ہوا‘ آپ الیکشن پر فوکس کریں‘ اچھے امیدواروں کا تعین کریں اور پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر مقابلہ کریں‘ آپ جس راستے پر چل رہے ہیں یہ آپ کو تباہ کر دے گا‘‘ لیکن خان نہیں مانے‘ بہرحال قصہ مختصر پی ٹی آئی کے احتجاج چلتے رہے یہاں تک کہ 9 مئی کو خان کو گرفتار کر لیا گیا اوریوں پارٹی پر سختیاں بڑھنے لگیں‘ یہ سختیاں الیکشن کے بعد بھی قائم رہیں‘ اس مشکل وقت میںچودھری تنویر احمد نے خان کے لیے حیران کن کام کیا‘ وہ کام کیا تھا لیکن میں اس سے قبل آپ کو دوسرے دونوں کرداروں کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ دوسرا کردار عاطف خان ہیں‘ یہ بھی ہیوسٹن میں رہتے ہیں‘ عمران خان کے دوست اور پارٹی عہدیدار ہیں‘ آکشن کا کام کرتے ہیں‘ نیلامی میں اشیاء خرید کر ایکسپورٹ کرتے ہیں‘ یہ بھی خوش حال امریکن پاکستانی ہیں‘ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سکواڈ بھی یہی چلاتے ہیں‘ پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کے کپتان جبران الیاس امریکا میں عاطف خان کے پاس رہائش پذیر ہیں‘یہ ان کی حفاظت بھی کر رہے ہیں‘ امریکا میں پاکستانی ڈاکٹر بہت خوش حال اور بااثر ہیں‘ ان کی اکثریت عمران خان کی طرف جھکائو رکھتی ہے‘ عاطف خان پارٹی اور ڈاکٹروں کے درمیان بڑا رابطہ ہیں‘ ڈاکٹروں کی صحبت کی وجہ سے لوگ انہیں بھی ڈاکٹر سمجھتے ہیں جب کہ یہ خود ڈاکٹر نہیں ہیں۔ تیسرا کردار سردار عبدالسمیع ہیں‘ یہ جنرل ضیاء الحق کے صاحب زادے اور سیاست دان اعجاز الحق کے دوست ہیں اور یہ بھی امریکا میں کاروبار کرتے ہیں۔

ہم اب اصل کہانی کی طرف آتے ہیں‘چودھری تنویر احمد پاکستان میں ویلفیئر کے پراجیکٹ کرتے رہتے ہیں‘ 2023ء میں انہوں نے نسٹ یونیورسٹی کو غریب طالب علموں کی تعلیم کے لیے 9 ملین ڈالرز کا ڈونیشن دیا‘ یہ خبر مختلف اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر نشر ہوئی جس کے بعد اعجاز الحق کے ذریعے ان کا آرمی چیف سے رابطہ ہوا اور دسمبر 2023ء میں ان کی جنرل عاصم منیر سے واشنگٹن میں ملاقات ہوئی اور یہاں سے ان کوششوں کا آغاز ہوا جس پر اس وقت پی ٹی آئی کے ٹرولرز اور یوٹیوبرز ماتم کر رہے ہیں۔چودھری تنویر احمد نے عاطف خان کو سمجھایا بانی کو سوشل میڈیا اور یوٹیوبرز جیل تک لے گئے ہیں‘ہم نے اگر کوشش نہ کی تو خان کی پوری زندگی جیل میں ضائع ہو جائے گی‘ ہمیں چاہیے ہم آگے بڑھ کر کوئی درمیان کا راستہ نکالیں‘ اس سے خان بچ جائے گا اور ملک بھی بدنام نہیں ہوگا‘

چودھری تنویر احمد کا موقف تھا امریکا میں پوری دنیا کے لوگ موجود ہیں لیکن ہمارے علاوہ کوئی کمیونٹی اپنے آبائی ملک کے خلاف کمپیئن نہیں کرتی‘ دنیا کے تمام ملکوں کے اندر مسائل موجود ہیں لیکن کسی ملک کے باشندے اقوام متحدہ‘ وائیٹ ہائوس اور سڑکوں پر اپنے ملک کے خلاف نعرے نہیں لگاتے جب کہ ہم امریکا میں اپنے ملک کی بے عزتی کر رہے ہیں جس کا نقصان ملک کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ہو رہا ہے لہٰذا ہمیں آگ بجھانے والوں کا کردار ادا کرنا چاہیے‘ آگ بھڑکانے والوں کا نہیں‘ یہ ڈائیلاگ کاری گر ثابت ہوا اور چودھری تنویر احمد اور خان کے امریکی پاکستانی دوستوں نے پل کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا‘

تنویر احمد نے ریاستی اداروں کو بھی قائل کر لیا کہ آپ ہمیں موقع دیں ہم عمران خان کو سمجھا کر درمیان کا راستہ نکالتے ہیں‘ انہیں بتایا گیا اسٹیبلشمنٹ خان سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گی ہاں البتہ آپ اگر پی ٹی آئی اور حکومت کو ساتھ ساتھ بٹھا سکتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘ یہ ایک بڑی رعایت اور موقع تھا چناں چہ تنویر احمد اور سردار عبدالسمیع نے اکتوبر اور نومبر 2024ء میں جیل میں بانی سے متعدد ملاقاتیں کیں اور ان کے نتیجے میں معاملات بڑی حد تک سیٹل ہو گئے‘ بشریٰ بی بی بھی ان ڈائیلاگ کے نتیجے میں جیل سے رہا ہوئیں لیکن پھر اچانک پی ٹی آئی نے 24 نومبر کے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ اس کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ تھے‘ ٹرمپ الیکشن جیت گیا اور اس کے بعد پی ٹی آئی کو محسوس ہوا ٹرمپ آنے والے دنوں میں ہمارے لیے لائف لائین ثابت ہو گا چناں چہ خان نے اپنے سارے انڈے ٹرمپ کی ٹوکری میں ڈال دیے اور یہ سیٹل منٹ کے وعدے سے پیچھے ہٹ گیا‘ یہ چودھری تنویر احمد اور ان کے ساتھیوں کے لیے حیران کن تھا‘انہیں خان کے پیچھے ہٹنے کی ہرگز توقع نہیں تھی لیکن یہ ہوا اور یوں ان کی سال بھر کی محنت ضائع ہو گئی‘ بہرحال قصہ مختصر24 نومبر کا احتجاج بری طرح ناکام ہوا اور ٹرمپ کا کارڈ بھی خان کے حق میں استعمال نہ ہو سکا اور خان نے دوبارہ تنویر صاحب کی طرف دیکھنا شروع کر دیا یوں فروری 2025ء میں سیٹل منٹ کی ایک اور کوشش شروع ہوئی۔

تنویر احمد کے ذریعے امریکا کے تین پاکستانی ڈاکٹروں نے آرمی چیف کے دفتر سے رابطہ کیااور خان کے معاملے میں آرمی چیف سے ملاقات کی درخواست کی‘ انہیں جواب دیا گیا آرمی چیف سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے‘ آپ ڈی جی آئی سے ملاقات کر لیں‘ انہیں یہ بھی بتایا گیا پی ٹی آئی نے اگر کوئی سیاسی ڈائیلاگ کرنا ہے تو یہ حکومت کے ساتھ ہی ہو سکیں گے‘ بہرحال قصہ مزید مختصر اس وفد کی مارچ کے دوسرے مہینے میں اسٹیبلشمنٹ کے دوسرے پاور فل عہدیدار سے ملاقات ہو گئی‘ ملاقات میں ڈاکٹر منیر خان‘ ڈاکٹر عثمان ملک‘ ڈاکٹر سائرہ بلال‘ چودھری تنویر احمد اور سردار عبدالسمیع شامل تھے‘ وفد میں شامل تینوں ڈاکٹرز عمران خان کے دوست ہیں‘ یہ پارٹی میں بھی شامل ہیں‘ ان کی اڑھائی گھنٹے ملاقات ہوئی‘ ملاقات میں فیصلہ ہوا اگر پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے رضا مند ہے تو یہ حکومت سے رابطہ کرے‘ اسٹیبلشمنٹ اسے خوش آمدید کہے گی‘ انہیں یہ بھی بتایا گیا عمران خان اگر واقعی سیریس ہیں تو پھر انہیں اپنے سوشل میڈیا کو لگام دینا ہو گی‘ سوشل میڈیا اور یوٹیوبرز کی نفرت کے ساتھ مذاکرات اور معاملات نہیں چل سکتے‘ عمران خان کے دوستوں نے اتفاق کیا اور خان کو سمجھانے کا وعدہ کیا‘ ان لوگوں نے بعدازاں جیل میں عمران خان سے ملاقات بھی کی۔

یہ ایک بڑا بریک تھرو تھا لیکن اس بریک تھرو کو بھی سوشل میڈیا اور عمران خان کے مہربان یوٹیوبرز نگل گئے‘ رہی سہی کسرجعفر ایکسپرس کی ہائی جیکنگ پر پارٹی کے رویے نے پوری کر دی‘ یہ ملاقات جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے دوران ہوئی تھی اور پاکستان تحریک انصاف کا سوشل میڈیا باقاعدہ بی ایل اے کو سپورٹ کر رہا تھا‘ عمرانی وفد نے بعدازاں عمران خان کو سمجھایا ‘ انہیں مذمت کا مشورہ بھی دیا گیا لیکن عمران خان نے وعدے کے باوجود جعفر ایکسپریس کے اغواء کی مذمت کی اور نہ افواج پاکستان کی سوشل میڈیا ٹرولنگ رکوائی‘اس سے مذاکرات کی اس کوشش کو بھی ٹھیک ٹھاک دھچکا لگ گیا‘ رہی سہی کسر پارٹی کے مہربان یوٹیوبرز نے پوری کر دی‘ وفد کے ایک ممبر (یہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں) نے اسلام آباد روانگی سے قبل ایک سابق صحافی اور موجودہ یوٹیوبر کو میٹنگ کی اطلاع دے دی تھی اور یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی لہٰذا یوٹیوبر نے ملاقات سے پہلے ہی وفد کے کپڑے پھاڑنا شروع کر دیے‘

ملاقات کے بعد بھی ان لوگوں نے یوٹیوبر کو ’’مواد‘‘ فراہم کر دیا اور یوں یہ بڑا بریک تھروبھی سوشل میڈیا کے گٹر میں گھل کر ضائع ہو گیا اور ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا عمران خان کی ضد اور سوشل میڈیا کی نفرت دونوں نے مل کر عمران خان کی سیاسی قبر کھوددی ہے ‘ یہ بھی ثابت ہو گیا پی ٹی آئی میں ایک بھی ایسا سمجھ دار شخص موجود نہیں جو معاملات کو سلجھا سکے‘ یہ سب لوگ آگ میں تیل پھینکنے والے ہیں اور ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہے خان جیل میں رہے تاکہ ان کی سیاست اور وی لاگ چلتے رہیں اور یہ لوگ اس نیک کام کے لیے روزانہ بارود کا نیا ذخیرہ جمع کرتے رہیں اور اس بارود کا صرف ایک ہدف ہوتا ہے اور وہ ہے خان چناں چہ کہا جا سکتا ہے پی ٹی آئی بری طرح یوٹیوبرز کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکی ہے اور ان لوگوں کی موجودگی میں پارٹی چل سکتی ہے اور نہ خان۔

موضوعات:



کالم



یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی


عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…