میرے ایک دوست ملا عمر صاحب سے اس وقت ملے تھے جس وقت وہ کابل فتح کر چکے تھے اور اسکی افغانستان پر حکومت تھی ۔ اس ملاقات کا احوال دلچسپی سے خالی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
وہ کہتے ہیں کہ جب میں اس سے ملنے گیا تو وہ اس وقت بھی صدارتی محل استعمال نہیں کر رہے تھے اور کابل شہر سے ذرا باہر ایک ایسے حجرے میں قیام تھا جو بلکل کچا تھا ۔ اس میں ایک بہت ہی لمبا برآمدہ تھا اور اسکا دروازہ ٹین کے ڈبے جوڑ کر بنایا گیا تھا ۔۔!
وہ جب پوچھتے پوچھتے اس حجرے تک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ حجرے پر صرف ایک ہی دربان کھڑا ہے جس کے پاس کلاشنکوف تھی ۔ دربان نے آمد کی غرض و غائت پوچھی ۔ اس نے ملا عمر صاحب سے ملنے کی درخواست کی ۔ وہ اس کو اندر لے گیا اور ایک چارپائی پر بیٹھا کر انتظار کرنے کا کہا کہ ملا عمر صاحب کسی کام سے گئے ہیں تھوڑی دیر میں آجائیں گے۔۔۔۔۔!!
تھوڑی دیر بعد اس نے حجرے میں ایک پھٹیچر سی موٹر سائکل پر سوار ایک شخص کو اندر آتے دیکھا جس کے ہاتھ موبل آئل یا تیل میں لتھڑے ہوئے تھے ۔ دربان جلدی سے دوڑ کر گیا اور ایک لوٹے میں پانی بھر کر لے آیا اور ہاتھ دھونے کے لیے مذکورہ شخص کو پانی ڈالنے لگا ۔ جب وہ ہاتھدھو چکا تو دربان نے مجھ سے کہا کہ ” یہ ملا عمر صاحب ہیں ”
وہ شخص بیان کرتا ہے کہ میں حیران رہ گیا تھا ۔ میں نے اس سے حیرت کے عالم میں پوچھا کہ ” امیر صاحب آپ کہاں گئے تھے اور یہ ہاتھوں پر سیاہ تیل کیسا لگا ہے ؟”
وہ کہتے ہیں کہ ملا عمر صاحب نے جواب دیا کہ دراصل میں اپنی حکومت سے تنخواہ نہیں لیتا ۔ میں انجن وغیرہ کا کام جانتا ہوں اور لوگوں کے جنریٹر وغیرہ ٹھیک کر کے اپنی مزدوری بنا لیتا ہوں ۔ یہ میں کسی کا جنریٹر ٹھیک کرنے گیا تھا ۔
یہ وہ شخص ہے جس کی ہیبت سے اس وقت پورا امریکہ اور مغرب لرزہ براندام ہے ۔ جو اس وقت دنیا کی چالیس بڑی طاقتوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے اور اللہ نے ان سب طاقتوں کو اس کے سامنے ذلیل کر دیا ہے ۔ ایک ایسا افسانوی کردار جو اس جدید دور میں کئی سال تک ایک ملک کا بادشاہ رہا لیکن اسکی ایک بھی تصویر دستیاب نہیں ۔۔!!
ملا عمر
16
فروری 2017
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں