بچہ جب لنگڑاتا اور روتا ہوا محل میں داخل ہوا تو اسے اس حالت میں دیکھ کر ملکہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا وہ روتی چیختی بچے کے پاس گئی۔ اسے سخت چوٹ لگی تھی۔ کئی جگہوں سے خون بہہ رہا تھا
اور گھٹنے کی ہڈی تو ٹوٹ چکی تھی۔بچہ تکلیف سے بے حال ہو رہا تھا۔ اولاد کی یہ حالت دیکھ کر ملکہ تقریبا بدحواس ہو گئی۔اس نے بچے سے پوچھا کہ تم کو کس نے مارا ہے۔ بچے نے ایک لڑکے کا نام بتایا جس کے ساتھ وہ کھیل رہا تھا۔ کھیل ہی کھیل میں لڑائی ہو گئی۔ اس لڑکے کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ اس نے اسی سے اچھی طرح خلیفہ کے بیٹے کی مرمت کر دی۔ یہ سن کر تو ملکہ آگ بگولہ ہو گئی۔ اس نے فوراً ملازموں کو حکم دیا اور وہ اس لڑکے کو پکڑکر محل میں لائے لیکن لڑکے کے پیچھے پیچھے اس کی ماں بھی روتی پیٹتی آ گئی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ سو رہے تھے۔ شور سنا تو اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئے۔ پوچھا، کیا بات ہے۔ ملکہ نے لڑکے کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ دکھائی۔ ملزم لڑکے کی ماں رو رو کر کہہ رہی تھی یہ میرا بیٹا ہے، اس کا باپ مر چکا ہے، عمر بن عبدالعزیز نے عورت کو قریب بلایا۔ پوچھا، کیا اسے بیت المال سے تنخواہ ملتی ہے؟
عورت نے عرض کیا” نہیںـ” خلیفہ نے حکم دیا اس عورت اور اس کے یتیم بچے کا نام فوراً رجسٹر میں درج کیا جائےاور انہیں پابندی سے روزینہ ادا کیا جائے۔ بیوی نے سخت احتجاج کیا کہ اس نے آپ کے بیٹے کو لنگڑا کر دیا۔ اسے سزا دینے کے بجائے الٹا آپ اسے روزینہ اور گزارہ الاؤنس دے رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے
آئندہ وہ آپ کے دوسرے بیٹے کو بھی لنگڑا کر دے گا۔جناب عمر بن عبدالعزیز ؒ نے فرمایا بیوی اللہ کو یہ بات زیادہ پسند ہے کہ قدرت ہونے کے باجود آدمی معاف کر دے اور اگر حکومت ملے تو عوام کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے کیونکہ اسلام کے نظام حکومت کی بنیاد ہی عوام کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک پر قائم ہے۔ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے نہ کہ مخدوم اور جابر سلطان۔