عصر کا وقت قریب آ رہا تھا اور جوں جوں عصر کا وقت آ رہا تھا کاروبار میں تیزی پیدا ہوتی جا رہی تھی ۔ قریبتھا کہ بصرہ کی جامع مسجد سے اذان کی آواز بلند ہو۔ خریدار مال خریدنے کی جلدی میں تھے۔ دکاندار اپنا مال جلد سے جلد فروخت کر دینے کی فکر میں عصر کا وقت ہوتا ہی ہے کاروبار میں تیزی کا ۔ اس لئے قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور خاص کر عصر کی نماز کا۔ کیونکہ اس وقت آدمی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے۔
موذن حی علی الصلوۃ کا کلمہ بلند کر کے اللہ کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور کاروبار کا تقاضا ہے کہ دکان پر آیا ہوا گاہک واپس نہ چلا جائے۔ بس کشاکش شروع ہو جاتی ہے۔ مادی و روحانی اور دینوی و اخروی تقاضوں کے درمیان۔ اگر اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ ہو اور دل سے انسان اسی کو رازق مطلق ماننے والا ہو تو مادی فائدوں کو ٹھکرا کر مسجد کی طرف قدم بڑھا دیتا ہے۔ پھر آخرت تو آخرت دنیا بھی اسے مل جاتی ہے۔ غرضیکہ موذن نے عصر کی اذان دے دی اور لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔ ان میں حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ بھی تھے۔ خواجہ صاحب ابھی مسجد کی سیڑھیوں ہی پر تھے کہ ان کی نگاہ سیڑھی کے کنارے پر پڑی ہوئی ایک پوستین پر پڑی۔ خواجہ حسن بصریؒ پوستین کو پہچان سے گئے۔ قریب جا کر جب غور سے دیکھا تو ان کا شک یقین میں بدل گیا۔ واقعتہً وہ حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ کی پوستین تھی۔ خواجہ صاحب اس کے قریب کھڑے ہو کر سوچنے لگے کہ حبیب عجمی بھی عجیب لاپرواہ آدمی ہیں پوستین اتار کر یہاں رکھ دی ہے اور خود غالباً وضو کرنے چلے گئے۔ ہزاروں آدمی آ جا رہے ہیں ۔ بازار کا معاملہ ہے ۔ اچھے برے۔ چور اچکے سبھی قسم کے لوگ ہیں اگر کوئی پوستین لے کر چمپت ہو جائے تو کیا بنے گا۔ حضرت خواجہ حسن بصریؒ کھڑے ہو کر اس کی نگرانی کرنے لگے کے اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ حبیب عجمی ؒ ہاتھ منہ پونچھتے چلے آ رہے ہیں۔ فرمایا کہ تم بھی عجیب آدمی ہو۔ شارع عام کے قریب مسجد کی سیڑھیوں پر پوستین چھوڑ کر چلے گئے۔ کوئی اٹھا لے جاتا تو کیا کرتے؟
آخر تم نے کس کے بھروسے پر اس کو یہاں چھوڑ دیا تھا؟ حبیب عجمیؒ نے فرمایا ” حضرت ! اسی کے بھروسے پر جس نے اتنی دیر سے آپ کو اس کی حفاظت و نگرانی پر مامور کر رکھا ہے معلوم ہوا جیسے حضرت حسن بصریؒ کی آنکھیں کھل گئی ہوں وہ محبت بھری نظروں سے حبیب عجمی ؒ کو دیکھنے لگے کہ عجمی حبیب ﷺ توکل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھا۔