جب بازار میں خریدار اور دکاندار کے درمیان تکرار ہونے لگی تو کافی لوگ جمع ہو گئے مگر یہ دیکھ کر سب حیران تھے کہ یہ تکرار زیادہ نفع اٹھانے پر نہیں بلکہ زیادہ نقصان اٹھانے پر ہو رہی ہے۔حضرت محمد بن منکدر مشہور تابعی کپڑے کے ٹکڑوں یعنی کٹ پیس کی تجارت کرتے تھے انہوں نے چند ٹکڑوں کی قیمت میں دس درہم اور چند کی پانچ درہم مقرر کر رکھی تھی۔ دس درہم اور پانچ درہم کے ٹکڑے الگ الگ رکھے ہوئے تھے حضرت محمد بن منکدر رحمتہ اللہ علیہ کسی ضرورت سے دکان سے اٹھ کر گئے۔
ان کا غلام دکان پر موجود تھا گاہک آیا اور غلام نے بھولے سے پانچ درہم کے ٹکڑے دس درہم میں فروخت کر دیئے جب جناب ابن منکدر تشریف لائے اور انہیں یہ بات معلوم ہوتی تو ایسا لگا جیسے کہ وہ حواس باختہ ہو گے ہوں غلام سے خریدار کا حلیہ دریافت کیا اور دن بھر بازار میں اسے ڈھونڈتے پھرے آخر بڑی تلاش و جستجو کے بعد وہ خریدار ملا تو اسے اپنے ساتھ دکان پر لے آئے اور فرمایا کہ بھائی غلطی سے میرے غلام نے پانچ درہم کے کپڑے کو دس درہم میں تیرے ہاتھ فروخت کر دیا ہے اس لئے تو یا تو پانچ درہم مجھ سے واپس لے لے یا اپنے دس درہم لے کر کپڑا مجھے واپس کر دے۔ خریدار ہنسنے لگا اس نے کہا حضرت! میں اس خرید و فروخت پر راضی ہوں کوئی حرج نہیں اگر میں نے پانچ کی بجائے دس درہم دے دیئے مجھے یہ ٹکڑا پسند ہے۔حضرت محمد بن منکدر رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا مگر میں تو اس پر راضی نہیں کہ تجھ سے زیادہ رقم مل جائے۔ اب خریدار و دکاندار میں تکرار ہونے لگی ۔ لوگ جمع ہو گئے۔ لوگوں نے کہا۔ حضرت! جب خریدار دس درہم پر راضی ہے تو آپ کو اعتراض کیوں ہے؟ محمد بن منکدر نے فرمایا۔ لوگو! مجھے اس وقت سردار دو عالم ﷺ کی ایک حدیث یاد آ رہی ہے کہ ” اس شخص کا ایمان کامل نہیں جو اپنے بھائی کے لئے وہ بات پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے پسند کرتا ہے” میں اپنے آقا ﷺ کے اس قول کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔
پانچ درہم کی چیز کے دس درہم دینا مجھے اپنی ذات کے لئے پسند نہیں تو میں اس شخص کے لئے کیسے گوارا کر لوں۔ آخر ان کے اصرار پر خریدار نے پانچ درہم واپس لے لئے تب اس کی جان چھوٹی۔ اہل بازار نے بیک زبان کہا “یہ ہیں محمد بن منکدر امین، مومن کامل، تاجر صادق، آنحضرت ﷺ کے صحیح تابع دار۔