ایک سر سبز اور شاداب جزیرے میں ایک گاۓ رهتی تھی- وه صبح کو چرنے کے لیے نکلتی اور رات کو سارے جنگل کو چر کر خوب موٹی تازی هو جاتی تھی-لیکن ساری رات اس غم میں گھلتی رهتی که کل کیا کھاؤں گی-
صبح تک وه اسی فکر میں سوکھ کر کانٹا بن جاتی- خدا کی قدرت که هر صبح کووه جنگل پھرهرا بھرا هوجاتا اور اس میں کمر کمر تک سبزه اگ آتا- وه گاۓ مزے سے یه سبزه رات تک چرتی رهتیاور اس کے بدن پر چربی کی تهیں چڑھ جاتیں لیکن رات کو وه پھر”غم فردا“ کے بخار میں مبتلا هوجاتی اور صبحتک اس قدر لاغر هو جاتی که جسم کی ایک ایک هڈی نظر آنے لگتی- غرض یه کیفیت برسوں تک جاری رهی اور گاۓ کی سمجھ میں یه بات نه آئی که جب خالق کائنات هر روز اس کی روزی کا سامان خود مهیا کردیتا هے تو پھر کل کی فکر میں گھلنے کی کیا ضرورت هے- یه گاۓ انسان کا نفس هے اور سرسبز جزیره یه دنیا- الله تعالی انسان کو هر روز رزق عطا فرماتا هے لیکن انسان اس غم میں دبلا هوتا رهتا هے که کل کیا دکھاؤں گا~تو سالها سال سے کھا رها هے اور تیرے رزق میں کمی نهیں آئی- پس تو کل کی فکر کو ترک کر اور ماضی سے سبق لے-