حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ جلیل القدر تابعین اورمقتداۓ اربعین میں سے ہیںحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھےکہ اویس احسان ومہربانی کےاعتبار سے بہترین تابعین میں سے ہیں. اور بعض اوقات جانب یمن روۓ مبارک کرکے فرمایا کرتے تھے” میں یمن کی جانب سے رحمت کی ہوا آتی ہوئی پاتا ہوں، ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ ” روز محشر ستر ہزار ملائکہ کے جلو میں جو اویس قرنی رحمہ اللہ علیہ کے شبیہ ہوں گے
حضرت اویس کو جنت میں داخل کیاجاۓ گا. تاکہ مخلوق ان کو شناخت نہ کرسکے”ایک اور حدیث مبارکہ میں آیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایک ایسا شخص ہے جس کی شفاعت سے قبیلہ ربیعہ و مضر کی بھیڑوں کے بال کےبرابر گناہگاروں کو بخش دیا جاۓ گا، ربیعہ و مضر دو قبیلے ہیں جن میں بکثرت بھڑیں پالی جاتی تھیں جب صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وہ کون شخص ہے اور کہاں مقیم ہے؟تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ایک بندہ ہے پھر صحابہ کے اصرار کے بعد فرمایا کہ وہ اویس قرنی ہے. صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہ کبھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوۓ ہیں؟ آپ نے فرمایا کبھی نہیں لیکن چشم ظاہری کے بجاۓ چشم باطنی سے اس کو میرے دیدار کی سعادت حاصل ہے،اور مجھ تک نہ پہنچنے کی دو وجوہ ہیں، اول غلبہ حال، دوم تعظیم شریعت، کیوں کہ اس کی والدہ مومنہ بھی ہیں اور ضعیف و نابینا بھی اور اویس شتربانی کے ذریعہ سے ان کے لیے معاش حاصل کرتا ہے پھر جب صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا ہم ان سے شرف نیاز حاصل کرسکتے ہیں؟تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” نہیں” البتہ عمرو علی رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوگی
اور ان کی شناخت یہ ہے کہ پورے جسم پربال ہیں اور ہتھیلی کے بائیں پہلو پر ایک درم کے مساوی سفید رنگ کا داغ ہے لیکن وہ برص کا داغ نہیں، لہذا جب ان سے ملاقات ہو تو میرا سلام پہنچانے کے بعد میری امت کے لیے دعا کرنے کا پیغام بھی دینا پھر جب صحابہ کرام نے عرض کیاکہ آپ کے پیراہن کا حقدار کون ہے؟فرمایا کہ اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو ایسے کمبل کے لباس میں دیکھا
جس کے نیچے تونگری کے ہزاروں عالم پوشیدہ تھے، یہ دیکھ کر آپ کے قلب میں خلافت سے دستبرداری کی خواہش بیدار ہوئی اور آپ فرمانے لگے کیا کوئی ایسا شخص ہے جو روٹی کے ایک ٹکڑے کے معاوضہ میں مجھ سے خلافت خرید لے، یہ سنکر حضرت اویس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی بیوقوف شخص ہی خرید سکتا ہے آپ کو تو فروخت کرنے کی بجاۓ اٹھا کر پھینک دینی چاہیےپھر جس کا جی چاہے اٹھا لے گا
جب جنگ احد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا داندان مبارک شہید ہوا اور تو آپ نے اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے تمام دانت توڑ ڈالے تھے جب حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ نماز میں تشہد کے بعد میں یہ دعا کیاکرتا ہوں اۓ اللہ تعالی تمام مومنین ومومنات کی مغفرت فرما، اور اگر تم ایمان کےساتھ دنیا سے رخصت ہوۓ تو تمہیں سرخروی حاصل ہوگی
ورنہ میری دعا بے سود ہو کر رہ جاۓ گی. اور جب حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمانے کا کہا تو آپ نے فرمایا: اۓ عمر! اگر تم خداشناس ہو تو اس سے زیادہ افضل اور کوئی وصیت نہیں کہ تم خدا کے سوا کسی دوسرے کو نہ پہچانو، پھرپوچھا کہ اۓ عمر رضی اللہ عنہ کیا اللہ تعالی تم کو پہچانتا ہے؟آپ نے فرمایا ہاں! توحضرت اویس رحمتہ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ بس اللہ تعالی کے علاوہ تمہیں کوئی نہ پہچانے یہی تمہارے لیے افضل ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے استدعا کی کہ آپ کچھ دیر اسی جگہ قیام فرمائیں، میں آپ کےلیے کچھ لے کرآتا ہوں تو آپ نے جیب سے دو درہم نکال کردکھاتے ہوۓ کہا کہ یہ اونٹ چرانے کا معاوضہ ہے اور اگر آپ یہ ضمانت دیں کہ یہ درم خرچ ہونے سے پہلے میری موت نہیں آۓ گی تو پھر یقینا” آپ کا جو جی چاہے عنایت فرمادیں، ورنہ یہ دو درہم میرے لیے بہت کافی ہیں پھرفرمایا کہ یہاں تک پہنچنے میں آپ حضرات کو جو اذیت ہوئی
اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں اور اب آپ دونوں واپس ہوجائیں کیونکہ کہ روز حشر قریب ہے اور میں زاد آخرت کی فکر میں لگا ہوا ہوں پھر ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہ کی واپسی کے بعد جب لوگوں کےقلوب میں حضرت اویس رحمتہ اللہ علیہ کی عظمت جاگزیں ہوئی تو آپ گھبرا کر کوفہ میں سکونت پذیر ہوگے اور وہاں پہنچنے کے بعد آپ کو صرف ہرم بن حبان رحمتہ اللہ علیہ کے علاوہ کسی دوسرے شخص نے نہیں دیکھا،