عرب کی مشہور زمانہ سخی حاتم طائی کی بیٹی تھیں۔ قبیلہ طے یمن میں آباد تھا اور حاتم طائی اس قبیلہ کا سردار تھا۔ اس نے اپنے قبیلے سمیت عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ سرور عالمﷺ کی بعثت سے چند سال پہلے حاتم طائی نے وفات پائی تو قبیلے کا سردار ان کا فرزند عدی نامزد ہوا۔ 9ھ میں حضوؐر نے ایک چھوٹا سا لشکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قیادت میں بنوطے کی طرف بھیجا۔
عدی نے اس لشکر کی آمد کی خبر سنیتو وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر شام چلے گئے اور وہاں ایک بستی جوشیہ میں اقامت اختیار کر لی۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت جو بھگدڑ مچی اس میں عدی کی بہن سفانہ ان سے بچھڑ گئیں اور اسلامی لشکر کے ہاتھ اسیر ہو گئیں۔ یہ لشکر مدینہ منورہ پہنچا اور اسیروں کو حضوؐر کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو سفانہ نے آگے بڑھ کر عرض کی:’’اے صاحب قریشؐ میں بے یارومددگار ہوں۔ مجھ پر رحم کیجئے۔ باپ کا سایہ میرے سر سے اٹھ چکا ہے اور بھائی مجھے تنہا چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ میرے والد بنوطے کے سردار تھے، وہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے، یتیموں کی سرپرستی کرتے تھے، حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرتے تھے، مظلوموں کی مدد کرتے تھے اور ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچاتے تھے۔ میں اس حاتم طائی کی بیٹی ہوں جس نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دیا تھا اگر آپؐ مناسب سمجھیں تو مجھے آزاد کر دیں‘‘۔حضوؐر نے سفانہؒ کی باتیں سن کر فرمایا ’’اے خاتون جو اوصاف تو نے اپنے باپ کے بیان کئے ہیں یہ تو مسلمانوں کی صفات ہیں اگر تیرے والد زندہ ہوتے تو ہم ان سے اچھا سلوک کرتے ‘‘۔ اس کے بعد آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا ’’اس عورت کو چھوڑ دو یہ ایک معزز اور نیک خصلت باپ کی بیٹی ہے۔
کوئی معزز شخص ذلیل ہو جائے اور کوئی مالدار محتاج ہو جائے تو اس کے حال پر ترس کھایا کرو‘‘۔صحابہ کرامؓ نے سفانہؓ کو فوراً چھوڑ دیا لیکن وہ اپنی جگہ پر کھڑی رہیں۔ حضوؐر نے پوچھا ’’کیوں اب کیا بات ہے؟‘‘سفانہؓ نے عرض کیا ’’اے محمدؐ میں جس باپ کی بیٹی ہوں اس کو یہ کبھی گوارا نہ تھا کہ قوم مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ سکھ کی نیند سوئے جہاں آپؐ نے مجھ پر کرم فرمایا وہاں میرے ساتھیوں پر بھی رحم فرمائیے
اللہ آپؐ کو جزا دے گا‘‘۔حضوؐر سفانہؓ کی درخواست سے بڑے متاثر ہوئے اور آپؐ نے حکم دیا کہ سارے اسیران طے کو رہا کر دیا جائے۔ اس پر سفانہؓ کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ جاری ہو گئے۔’’اللہ آپؐ کی نیکی کو اس شخص تک پہنچائے جو اس کا مستحق ہو۔ اللہ آپؐ کو کسی بدکیش اور بدطینت کا محتاج نہ کرے اور جس فیاض قوم سے کوئی نعمت چھن جائے اسے آپؐ کے ذریعے سے واپس دلا دے
۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ سفانہؓ نے جب پہلی مرتبہ حضوؐر سے اپنی رہائی کیلئے درخواست کی تو منجملہ دوسری باتوں کے یہ بھی کہا کہ مجھ کو چھڑانے والا موجود نہیں ہے اس لئے آپؐ ہی مجھ پر احسان کیجئے۔ خدا آپؐ پر احسان کرے گا۔حضوؐر نے پوچھا ’’چھڑانے والا کون؟‘‘انہوں نے جواب دیا ’’عدی بن حاتم، میں اس کی بہن ہوں‘‘۔حضوؐر نے فرمایا ’’وہی عدی بن حاتم جس نے خدا اور رسولؐ سے فرار اختیار کیا‘‘
۔سفانہؓ نے اثبات میں جواب دیا تو حضوؐر کوئی فیصلہ کئے بغیر تشریف لے گئے، دوسرے دن بھی سفانہؓ اور حضوؐر کے درمیان ایسا ہی مکالمہ ہوا، لیکن آپؐ نے کوئی فیصلہ صادر نہ فرمایا۔ تیسرے دن سفانہؓ نے پھر وہی درخواست کی۔ اس مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی ان کی سفارش کی۔ رحمت عالمﷺ نے اب یہ درخواست قبول فرما لی اور سفانہؓ کو رہا کرنے کا حکم دیا ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ابھی وطن جانے میں جلدی نہ کرو،
جب یمن جانے والا کوئی معتبر آدمی مل جائے تو اطلاع دو۔چند دن بعد یمن کے قبیلہ بَلیّ یا قضاعہ کا ایک وفد مدینے آیا۔ سفانہؓ نے حضوؐر سے استدعا کی کہ اس وفد کی واپسی کے وقت مجھے اس کے ہمراہ بھیج دیجئے۔ چنانچہ حضوؐر نے سفانہؓ کے مرتبے کے مطابق سواری، لباس اور زادِ راہ کا انتظام کر کے انہیں قافلے کے ساتھ روانہ کر دیا۔سفانہؓ کو علم تھا کہ عدی بن حاتم وطن سے بھاگ کر جوشیہ میں مقیم ہیں۔
چنانچہ حضوؐر سے رخصت ہو کر سیدھی جوشیہ پہنچیں۔ بہن اور بھائی کی ملاقات کیسے ہوئی، اس کو حضرت عدیؓ بن حاتم کے اپنے الفاظ میں سنیے:’’ایک دن جوشیہ میں ہمارے گھر کے سامنے ایک سانڈنی آ کر رکی۔ محمل میں ایک نقاب پوش عورت بیٹھی تھی مجھے شک گزرا کہ میری بہن ہے، لیکن پھر خیال آیا کہ اسے تو مسلمان اسیر کر کے لے گئے ہیں وہ اس شاندار انداز میں کیسے آ سکتی ہے۔ معاً محمل کا پردہ اٹھایا
اور یہ الفاظ میرے کان میں پڑے، ظالم، قاطع رحم تف ہے تجھ پر، اپنے اہل و عیال کو لے آئے اور مجھ کو بے یادرومددگار چھوڑ دیا۔بہن کی باتیں سن کر میں سخت شرمندہ ہوا۔ اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معافی مانگی۔ بہن خاموش ہو گئی۔پھر سواری سے اتر کر جب کچھ دیر آرام کر چکی تو میں نے پوچھا، تم ہوشیار اور عاقلہ ہو، صاحب قریشؐ سے مل کر تم نے کیا رائے قائم کی۔ بہن نے جواب دیا،
جس قدر جلد ہو سکے تم ان سے ملو اگر وہ نبیؐ ہیں تو ان سے ملنے میں سبقت کرنا شرف و سعادت ہے اور اگر بادشاہ ہیں تو بھی یمن کا کوئی فرمانروا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور ایک بادشاہ سے ملنے میں سبقت بھی تمہاری قدرومنزلت کا وسیلہ ہو گی۔ سفانہؓ کے مشورہ کے مطابق حضرت عدیؓ مدینہ پہنچ کر بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے اور شرف اسلام سے بہرہ ور ہو گئے۔ ان کے بعد سفانہؓ بھی سعادت اندوز اسلام ہو گئیں۔