ایک ولی اللہ سے کسی شخص نے کچھ زرو دینار قرض حسنہ لیئے ایک مدت کے بعد اس شخص نے لکھا کہ صاحب مجھے فراغت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی امین ملتا ہے اگر وقت نکال کر تشریف لے آئیں اور اپنی رقم واپس لے جائیں تو احسان مند کو سکون قلبی حاصل ہوگا ۔ ولی اللہ نے دنیا کے رنگ دکھانے یا پھر عملی تربیت کے لیئے اپنے فرزند ارجمند کو بھیجا جو کہ عنفوان شباب میں تھا اور اسباق تصوف و روحانیت زبانی پڑھ چکا تھا ۔
آپ نے اپنے جگر گوشہ کو تین نصیحتیں فرما ئیں :-1۔ پہلا مقام جہاں پر تمہارا قیام ہوگا ادھر ایک برگد کا درخت ہے اس درخت کے نیچے نہ سونا۔2۔ دوسرا مقام ایک بڑا شہر ہوگا اس کے اندر قیام نہ کرنا بلکہ شہر سے کھا پی کر فصیل شہر سے باہر ویرانے میں قیام کرنا۔3۔ تیسرا مقام مقروض کا گھر ہوگا یاد رکھنا کہ اس کے گھر قیام نہ کرنا۔لیکن ساتھ ہی فرمادیا کہ اگر کوئی واقف راہ و تجربہ کار مل جائے تو اس کو اپنا امیر بنا لینا اور اگر وہ میری نصیحتوں کے برخلاف کہے تو بلا شک و شبہ اس کی ہدایات پر عمل کرنا اور میری ہدایات کو پسِ پشت ڈال دینا ۔سالک نے کچھ راہ ہی طے کی تھی کہ ایک بوڑھا مسافر ملا عمررسیدہ مسکرایا اور سلام کرکے پوچھا برخوردار کہاں کا ارادہ ہے ،لڑکے نے سب حال کہہ سنایا جوابا بڑے میاں نے کہا کہ میرا بھی اسی شہر کا قصد ہے ۔خوب ہوا کہ ہمارا تمہارا ساتھ ہوگیا ۔جب پہلے مقام پر پڑاؤ ہوا تو بڑے میاں نے کہا کہ اس درخت کے نیچے رات بسر کریں گے تاکہ شبنم سے بچ سکیں۔لڑکا: جناب عالی مجھے والد صاحب نے نصیحت کی تھی کہ درخت کے نیچے نہیں لیٹنا ۔ بڑے میاں: کچھ اور بھی کہا تھا یا کہ نہیں ۔لڑکا: جی جی کہا تھا کہ اگر اس راہ کا کوئی واقف ملے تو اُن کا کہا مان لینا۔بڑے میاں: ہم اس راہ کی باریکیوں سے خوب واقف ہیں
لڑکا: جو حکم حضور کا ۔۔۔ بسرو چشمغرض دونوں نے درخت کے نیچے قیام کیا آدھی رات کے وقت ایک کالاناگ درخت پر سے اترا ۔ادھر بڑے میاں بالکل ہوشیار تھے جیسے ہی ناگ نے سَر زمین پر رکھا بڑے میاں نے فورا تلوار سے سر کو قلم کردیا اور ڈھال تلے ڈھک دیا ۔ جب صبح ہوئی اور دونوں کوچ کرنے لگے تو لڑکے دل میں خیال گزرا کہ یہ درخت تو بڑے سکون وآرام کو مقام ہے۔پس
پیر روشن ضمیر نے معلوم کیا کہ لڑکا باپ سے بدظن ہوا جاتا ہے ۔رات کا ماجرا سنایا اور ڈھال کے نیچے سے مرا ہوا سانپ نکال کر دکھایا ۔اُس وقت لڑکے کی تسلی و تشفی ہوگئی ۔ پھر بڑے میاں نے ارشاد فرمایا کہ ناگ کے سَر کو اٹھا کر اپنے پاس سنبھال لو ” داشتہ آید بکار گرچہ بود سر مار ” لڑکے نے فورا تعمیل کی اور دونوںچل نکلے ۔دوسرے دن ایک بڑے شہر پہنچے جو کہ ملک کا دارلخلافہ بھی تھا
بڑے میاں نے کہا کہ اس شہر میں رات کو قیام کریں گے ۔لڑکے نے اثبات میں سر کو ہلایا اور کہا کہ آپ کے فرمان کی تعمیل ہوگی۔اس شہر کا دستور تھا کہ جب کوئی جوان مسافر شب بسری کے لیئے سرائے میں آکر ٹھرتا تو بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کرادیتا تھا صبح کو وہ مسافر مردہ نکلتا تھا ۔قصہ مختصر کے نوجوان کی شادی بادشاہ کی بیٹی سے کردی گئی ۔پیر روشن ضمیر نے لڑکے کو کہا کہ تمہارے پاس جو سانپ کا زہر ہے
اس کی دھونی اپنی بیوی کو دینا اور طریقہ کار سمجھا دیا جب لڑکا دلہن کے پاس گیا تو اس نے اُس نے ایسا ہی کیا ۔عورت کے رحم میں ایک مرض تھا جو اس کے پاس جاتا زندہ نہ رہتا تھا اس دھونی کی تاثیر سے وہ مرض جاتا رہا اور صبح کو لڑکا صحیح سلامت محل سے نکل آیا اور دونوں اگلے پڑاؤ کی طرف روانہ ہوگئے۔جب مقروض کے گھر پہنچے تو بڑے میاں نے قرضہ کی رقم حوالے کرنے کے بعد کہا کہ اب مغرب ہونے کو ہے
رات کو کسی سرائے میں قیام کروگے تو رقم کے سرقہ ہونے کا خدشہ لاحق ہے اگر مناسب سمجھیں تو ادھر ہی قیام کرلیں بڑے میاں نے فورا حامی بھر لی چنانچہ شب کو وہیں بسرام کیا ۔ادھر میزبان کی نیت خراب ہوگئی اور ارادہ کیا کہ رات کو ان کو قتل کردونگا تو روپیہ بچ جائے گا ۔ مقروض نے پوچھا کہ صاحبو اندر لیٹو گے یا کہ باہر تو بڑے میاں فورا بولے اندر گھٹن و گھپ ہے باہر رات گزاریں گے تو صاحب ِ خانہ نے باہر چارپائیاں بچھادیں
دونوں محو استراحت ہوئے ۔جب آدھی رات ہوئی تو بڑے میاں نے لڑکے کو گہری نیند سے جگایا اور کہا کہ باہر شبنم پڑ رہی ہے بیمار پڑ جاؤگے اندر چلتے ہیں اور اندر کمرے میں آکر صاحبِ خانہ کے دونوں لڑکوں کو نیند سے اٹھوا کر ان کو کہا کہ تم باہر ہماری جگہ جا کر استراحت کرو ۔ جب رات کا تیسرا پہر آیا تو مقروض اٹھا اور باہر چارپائیوں پر سونے والوں کو قتل کردیا ۔علی الصبح لڑکے کی آنکھ شور و غل سے کھلی دیکھا تو گھر میں آہ و بکا اور گریہ کی آوازیں تھیں
معلوم ہوا کہ رات کو لٹیروں نے صاحبِ خانہ کے بیٹوں کو قتل کردیا ہے ۔بڑے میاں اور چھوٹے میاں واپس اپنی منزل کو روانہ ہوئے جب اس مقام پر پہنچے جہاں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تھی تو بڑے میاں نے کہا لو میاں اب ہماری جدائی کا وقت ہوا چاہتا ہے لڑکے نے عرض کی اجی نام تو بتلاتے جائیں فرمایا کہ آپ کے والد محترم کاشف حال ہیں ۔ غرض جب والد صاحب کے حضور پہنچے تو سارے سفر کی روداد گوش گزار کی اور آخر میں استفسار کیا کہ یہ بڑے میاں کون تھے تو والد محترم نے جواب دیا کہ یہ خضر علیہ السلام تھے۔