خلیفہ ہارون الرشید نے حضرت شفیقؒ سے نصیحت چاہی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہیں کسی بیابان میں پیاس لگے یہاں تک کہ تم ہلاک ہونے کے قریب ہو جاؤ اس وقت تمہیں ایک گھونٹ پانی ہاتھ لگے تو اسے کتنی قیمت میں خرید کر دو گے؟ خلیفہ نے کہا ’’جس قیمت پر بھی ملے‘‘۔
آپ نے فرمایا ’’اگر وہ نصف ملک سے کم قیمت پر فروخت نہ کرے؟‘‘ خلیفہ نے کہا ’’میں یہی قیمت دے دوں گا‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا ’’جب وہ پانی پیو، تو اس کے پینے سے تمہارا پیشاب بند ہو جائے یہاں تک کہ خوف ہلاکت ہو اور کوئی تم سے کہے،میں تمہارا علاج کرتا ہوں لیکن اس کے عوض میں تمہارا نصف ملک لوں گا تو پھر تم اس حالت میں کیا کرو گے؟‘‘ خلیفہ نے کہا دے دوں گا تاکہ مجھے شفا نصیب ہو‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ بھلا ایسی بادشاہت پر پھر کیوں نازاں ہو؟ جس کی قیمت صرف پانی کا ایک گھونٹ ہو اور جو باہر بھی نہ نکلے۔ پھر فرمایا ’’ہوش کر اللہ تعالیٰ نے تجھے صدیقؓ کی جگہ پر بٹھایا ہے اور وہ تجھ سے صدق طلب کرتا ہے۔ اور فاروقؓ کی جگہ پر بٹھایا ہے وہ تجھ سے حق و باطل کا فرق چاہتا ہے۔ اور تجھ کو عثمانؓ غنی کی جگہ پر بٹھایا ہے وہ تجھ سے جہاد کرم چاہتا ہے اور تجھ کو مرتضیٰؓ کی جگہ پر بٹھایا ہے وہ تجھ سے علم و عدل چاہتا ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’تو چشمہ ہے اور تیرے حاکم بمنزلہ نہر ہیں۔ اگر چشمہ روشن نہ ہو تو پھر کسی طرح بھی نہروں کے روشن ہونے کی امید نہیں ہوتی‘‘۔ ہارون رشید یہ سن کر رو دیا اور آپ کو اعزاز و اکرام سے رخصت
کیا۔