جمعرات‬‮ ، 26 دسمبر‬‮ 2024 

پھانسی کا آغاز کب ہوا تھا؟

datetime 8  مارچ‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(نیوز ڈیسک) 1754ء سال قبل مسیح، موجودہ عراق میں جہاں دنیا کی قدیم ترین بابل کی تہذیب واقع تھی، سے ملنے والے حمورابی کے ضابطہ قانون میں بھی موت کی سزاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ موت کی سزا دینے کے لیے قرون وسطیٰ سے لے کر آج تک جو طریقہ سب سے مقبول رہا وہ پھانسی ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی دنیا کے جن ممالک میں سزائے موت لاگو ہے وہاں بیشتر میں پھانسی کے ذریعے ہی فیصلے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ اس میں مجرم کی گردن کے گرد پھندا ڈال کر اسے کسی بھی اونچی جگہ سے لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ وہ گردن کی ہڈی ٹوٹنے یا دم گھٹنے سے مر جائے۔
آج پاکستان، افغانستان، بھارت اور ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں مختلف جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت، پھانسی کے ذریعے ہی دی جاتی ہے۔ پھانسی دینے کا ایک پورا دستور العمل ہے اور اسی کی پیروی کرتے ہوئے اس عمل کو مکمل کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک روز قبل مجرم کا وزن کیا جاتا ہے تا کہ اندازہ ہو سکے کہ سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے رسی کیسی اور کتنی درکار ہوگی جو اس کے جسم کے بوجھ کو سہار سکے۔ تجربے کے لیے مجرم کے وزن کے برابر ریت ایک بوری میں بھر کر اسے تختہ دار پر تجرباتی پھانسی کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ مجرم کی فوری موت کو یقینی بنانے کے لیے رسی کی لمبائی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر رسی زیادہ لمبی ہو تو ملزم کا سر تن سے جدا بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ بہت چھوٹی کر دی جائے تو اس کی موت دم گھٹنے سے ہی ہوگی یعنی اس میں بہت وقت صرف ہوگا۔
ایک اندازے کے مطابق جان نکلنے میں پون گھنٹہ لگ سکتا ہے، یعنی یہ بہت اذیت ناک موت ہو سکتی ہے۔ پھانسی دینے کے لیے جو رسی استعمال کی جاتی ہے وہ تین چوتھائی انچ سے لے کر سوا انچ تک موٹی ہوتی ہے۔ اسے پھانسی سے قبل اُبالا جاتا ہے اور خوب کھینچ تان کر سخت کیا جاتا ہے تاکہ اس میں لچک اور گھماؤ ختم ہو جائے۔ رسی میں جو گرہ لگائی جاتی ہے اسے موم یا صابن سے خوب چکنا کیا جاتا ہے تاکہ تختہ کھینچنے کے بعد وہ پھندے کو گردن کے گرد اچھی طرح کسنے میں مدد دے۔
پھانسی سے قبل قیدی کے ہاتھ اور ٹانگیں، دونوں باندھے جاتے ہیں۔ آنکھوں پر پٹی بھی باندھی جاتی ہے یا پھر چہرے کو ہی ڈھانپ دیا جاتا ہے، پھر پھندا اس کے گردن کے گرد ڈالنے کے بعد گرہ کو بائیں کان کے قریب رکھا جاتا ہے۔ پھانسی دیتے ہوئے اس کے پیروں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا جاتا ہے اور یوں قیدی نیچے لٹک جاتا ہے اور اس کے جسم کا پورا وزن اس کی گردن پر زور ڈالتا ہے جس سے گردن کی ہڈی ٹوٹ جانی چاہیے لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ مجرم گردن کی ہڈی ٹوٹنے سے مرا ہو۔ تختے پر جھولنے والے شخص کی گردن کے پٹھے مضبوط ہوں یا وزن کافی کم ہو یا پھر رسی چھوٹی ہو یا پھندے کے غلط جگہ پر کسا گیا ہو تو گردن کی ہڈی ٹوٹنے میں وقت لگ جاتا ہے اور موت صرف دم گھٹنے سے آہستہ آہستہ ہی واقع ہوتی ہے۔ اس صورت میں چہرہ خون جمنے کی وجہ سے سوج جاتا ہے، زبان اور آنکھیں باہر نکل آتی ہیں اور مجرم تختہ دار پر تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے۔
تاریخ میں کئی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہیں پھانسی کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ان میں پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہیں کہ جنہیں ایک قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی اور 4 اپریل 1979ء کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔
لیبیا کی تحریک آزادی کے عظیم رہنما عمر مختار کو 16 ستمبر 1931ء کو قابض اطالوی افواج نے پھانسی کی سزا دی۔ اسی سال یعنی 1931ء میں 23 مارچ کو لاہور میں برطانوی راج نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی تھی۔ 17 ستمبر 1961ء کو ترکی کے سابق وزیراعظم عدنان میندریس کو فوج نے آئین کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر پھانسی دے دی۔ ماضی قریب میں عراق کے سابق صدر صدام حسین، بھارت میں افضل گورو اور بنگلا دیش میں عبد القادر ملا کو پھانسی دینے کے واقعات نے بھی عالمی شہرت حاصل کی۔

موضوعات:



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…