کیے‘ تو بھارتی حکومت چوکنا ہو گئی۔ چناںچہ بھارت پچھلے سولہ سال کے دوران پلوٹونیم بنانے والے پانچ ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کر چکا ہے۔ ماہرین کی روسے اس وقت بھارتیوں کے پاس ’’دو ہزار‘‘ سے زائد ایٹم بم موجود ہیں۔ نیز ان کے ایٹمی ری ایکٹر سالانہ اتنا زیادہ پلوٹونیم بناتے ہیں کہ ’’۱۵۰‘‘ ایٹم بم بنائے جا سکیں۔
ظاہر ہے‘ یہ پاکستان کے لیے تشویش ناک صورت حال ہے۔ پاکستانی حکومت چاہتی ہے کہ وہ ’’مزاحمت کا توازن ‘‘(Deterrence)برقرار رکھے تاکہ بھارتی حکومت اُسے میلی نظر سے دیکھنے کی جرأت نہ کر سکے۔
مزیدبرآں ماہرین کا کہناہے کہ ایک ایٹمی قوت کے لیے یہ اہم بات نہیں کہ وہ کتنے ایٹم بم رکھتی ہے۔ اہمیت یہ ہے کہ اس کا ڈلیوری سسٹم کتنا تیز رفتار ہے…؟ اور اس شعبے میں پاکستان کو اپنے ممکنہ دشمن پر برتری حاصل ہے۔ ہمارے ذہین سائنس دان برق رفتار میزائل بناچکے۔ یہ میزائل چھوٹے بڑے ایٹم بم لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔پاکستانی ماہرین آج کل بابر کروز میزائل (حتف ہفتم) کا ایسا ورژن یا نمونہ ایجاد کرنے میں مصروف ہیں جسے آبدوز سے چھوڑا جا سکے گا۔ یوں پاکستان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ سمندر کے راستے سے دوسرا حملہ (Second Strike)کر سکے۔
دین اسلام میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ زیادتی نہ کریں‘ تاہم اپنے دفاع میں جنگ لڑ سکتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو… مگر تب بھی زیادتی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ زیادہ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ سورہ البقرہ۔ ۱۹۱)
بشکریہ ۔اردوڈائجسٹ