۔پاکستانی پلوٹونیم کے ضمن میں ۱۹۸۰ء میں اہم پیش رفت ہوئی جب بیلجیم کے تعاون سے ہمارے ماہرین نے ملتان میں بھاری پانی (Heavy water)تیار کرنے والا ایک پلانٹ لگا لیا۔ اس بھاری پانی پلانٹ کی تفصیل خفیہ (کلاسیفائیڈ) ہے۔ بہرحال اس پلانٹ میں سالانہ ۱۳ ٹن بھاری پانی تیار ہو سکتا ہے۔منیراحمد خان نے ۱۹۸۰ء ہی میں نیلور (اسلام آباد) میں ایسے پلانٹ کی تعمیر شروع کرا دی جہاں ایٹمی ری ایکٹروں میں استعمال شدہ یورینیم کو پلوٹونیم میں بدلا جا سکے۔ اس پلانٹ کی تعمیر کے پروجیکٹ لیڈر مشہور ایٹمی کیمیا دان‘ چودھری عبدالمجید مقرر ہوئے۔
یہ ری پروسیسنگ پلانٹ ۱۹۸۱ء میں مکمل ہوا۔ یہ اب ’’نیو لیبارٹریز‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ قابل فخربات یہ ہے کہ اسے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنس دانوں‘ انجینئروں اور ہنرمندوں نے کمال مہارت سے مکمل کیا۔ یوں انھوں نے اپنی زبردست ذہانت اور محنت کا سکہ سبھی کے دلوں پر بٹھا دیا۔چودھری عبدالمجید۱۹۳۷ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۹ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایٹمی کیمیا میں ایم ایس سی کیا۔ بعدازاںآپ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۶۴ء میں کمیشن سے اسکالر شپ حاصل کر کے بیلجیم چلے گئے۔ وہاں آپ نے کاتھولیکے یونیورسٹی سے ایٹمی کیمیا ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔
آپ ۱۹۷۴ء میں واپس آئے۔ جب نیلور ‘ اسلام آباد میں نیولیبارٹریز کی تعمیر شروع ہوئی‘ تو آپ کو اس کا پہلا ٹیکنیکل ڈائریکٹر بننے کااعزاز حاصل ہوا۔ بعدازاں آپ نے خوشاب اور چشمہ میں ایٹمی ری ایکٹر کی تیاری میں بھی سرگرم حصہ لیا۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں وفات پائی۔کراچی میں کینوپ ایٹمی ری ایکٹر ۱۹۷۲ء سے کام کر رہا تھا۔ مگر بین الاقوامی ایٹمی توانائی کمیشن کے انسپکٹر اس کے معائنے پر مامور تھے۔ یعنی کینوپ سے استعمال شدہ یورینیم نیو لیبارٹری تک لانا ناممکن تھا۔ ایسی صورت میں پاکستان عالمی معاہدے توڑ ڈالتا جو یقینا قابل قبول بات نہ تھی۔
لہٰذا فیصلہ ہوا کہ جوہر آباد (ضلع خوشاب) کے نزدیک ایسے ری ایکٹر تعمیر کیے جائیں جو بین الاقوامی توانائی کمیشن کی دسترس سے باہر ہوں۔ یوں ۱۹۸۹ء میں ’’خوشاب نیو کلیئر کمپلیکس‘‘ کی بنیاد پڑی۔ اس منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ایٹمی انجینئر‘ سلطان بشیرالدین بنائے گئے۔یوں جوہر آباد میں پہلا ایٹمی ری ایکٹر تعمیر ہونے لگا۔ اب دوبارہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنس دانوں نے زبردست کارکردگی دکھائی اور شبانہ روز محنت کر کے ۱۹۹۶ء تک ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کر دیا۔ ۲۰۰۰ء تک اس ری ایکٹر میں استعمال شدہ اتنا یورینیم اکٹھا ہو گیا کہ نیو لیبارٹریز