صحارا میں سب سے گرم مہینے جولائی اور اگست ہوتے ہیں جبکہ جنوبی حصے میں مئی اور جون سب سے زیادہ گرم ہوتے ہیں۔ ایک طرف دن کے وقت موسم اتنا گرم ہوتا ہے تو دوسری طرف راتیں انتہائی ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ رات کو درجہ حرارت غیر معمولی طور پر گر جاتا ہے اور شمال کے بلند علاقوں میں کہرا اور برف تک جم جاتی ہے۔ تیز دھوپ کے علاوہ صحارا کے موسم کی ایک اہم خصوصیت وہ تیز ہوا جو روز چلتی ہے اور اپنے ساتھ ریت اور مٹی لے کر آتی ہے۔اس ریگستان میں ایسے مقامات بھی ہیں جو سال میں 70 دن تک طوفان کی زد میں رہتے ہیں۔
صحارا بالکل چٹیل بھی نہیں ہے اس میں کہیں کہیں پودے بھی اگتے ہیں۔ ایسے پودے جو صحرا میں پرورش پاسکتے ہیں اور جنہیں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صحارا کے شمالی علاقے میں کھجور کے درخت ہوتے ہیں جبکہ جنوبی حصہ میں کیکر اور مختلف قسم کی جھاڑیاں پائی جاتی ہیں۔ یہاں عام طور پر ایسے کیڑے ہوتے ہیں جو زمین کھود کر اپنا گھر بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے جانوروں میں ایک خاص قسم کا کینگرو اور ہرن بھی پائے جاتے ہیں۔صحارا کا علاقہ صدیوں سے قافلوں کے لیے گزرگاہ بنا ہوا ہے۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے ہی ایک ریگستان نہیں تھا۔ اس کے موسم میں مختلف ادوار میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اس کا موجودہ موسم 3 ہزار قبل مسیح سے شروع ہوا۔ ابتداء میں صحرائے صحارا اس سے کہیں طویل علاقہ میں پھیلا ہوا تھا جتنا کہ آج ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کو یہاں ایسے آثار ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے یہاں کبھی انسان کے علاوہ بڑے جانور‘ بھینس‘ ہاتھی وغیرہ بھی پائے جاتے تھے۔بے آب و گیاہ اس صحرا میں یوں تو زندگی کا تصور خام خیالی محسوس ہوتا ہے لیکن یہاں صدیوں سے خانہ بدوش آباد ہیں۔ یہاں چار قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ان میں زیادہ تر ’’بربر‘‘ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ شمالی علاقہ میں عرب بربروں کی تعداد زیادہ ہے۔ مغرب میں مورز نسل کے افراد رہتے ہیں۔ جنوبی وسطیٰ پہاڑوں کے نزدیک توریگ آباد ہیں جبکہ تبتی پہاڑوں اور جنوبی صحارا میں ٹیڈا کی تعداد زیادہ ہے۔ ان لوگوں نے یہاں کے موسم اور حالات سے سمجھوتا کر رکھا ہے۔زمانہ قدیم میں صحارا کے رہنے والے اونٹ ‘بھیڑ بکریاں پالتے اور ان سے ہی اپنی گزر بسر کیا کرتے تھے۔ طاقتور قبیلے ہی صحرا پر حکمرانی کرتے۔ نخلستانوں کا تمام انتظام اپنے ہاتھ میں رکھتے اور صحرا سے گزرنے والے قافلوں سے تمام کاروبار کرتے۔ خاص طور پر ’’توریگ‘‘ اپنی بہادری‘ شجاعت اور جنگجویانہ خوبیوں کی وجہ سے مشہور تھے۔ صدیوں تک صحارا کا راستہ ہی ایسا ذریعہ تھا جس سے گزر کر افریقہ کے باشندے افریقہ کی شمالی بندرگاہوں تک پہنچتے اور اپنے ساتھ سونا‘ ہاتھی دانت اور نمک لاتے اور اس کی تجارت کرتے تھے۔یہ صحرا دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے اور اس صحرا کے بغیر دنیا مکمل نہیں ہوتی بلکہ اگریوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا جس نے یہ صحرا ئے اعظم نہیں دیکھا اس نے دنیا نہیں دیکھی۔
قدرت کا عجوبہ۔۔۔صحرائے صحارا
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں