دنیا میں قدرت کے جلوے چہار سو ہیں‘ کہیں دیوقامت پہاڑ ایستادہ ہیں‘ کہیں ان پر بہتے جھرنے ‘ دریا اور سمندر ہیں‘ میٹھے اور کھارے پینے کے چشمے ہیں‘ سرسبزکھیت و کھلیان ہیں‘ موسموں کا حسین امتزاج بھی ہے‘ کہکشائیں بھی ہیں‘ سورج اور چاند ستاروں کی جھلملاہٹ بھی ہے اور کہیں چٹیل میدان‘ خشک صحرا اور ریتلے ٹیلے ہیں۔ یہ سب قدرت کی نشانیاں ہیں۔ ان نشانیوں میں ایک صحرائے اعظم بھی ہے۔ یہ دنیا میں قدرت کا ایک عجوبہ ہے جسے دیکھ کر انسان محو حیرت ہوتا ہے۔ دنیا کے اس سب سے بڑے صحرا کا زیادہ تر حصہ شمالی افریقہ کے علاقوں پر مشتمل ہے جوقریباً 5149 کلو میٹر ہے۔
یہ علاقہ مصر سے سوڈان تک جبکہ مغرب میں ماریطانیہ اور سپین کی سرحدوں تک چلا جاتا ہے۔ درمیان میں کئی ممالک آتے ہیں۔ جیسے الجزائر‘ چاڈ و نائیجر وغیرہ۔صحرائے صحارا کا رقبہ 86 لاکھ مربع کلو میٹر (33 لاکھ 20 ہزار مربع میل) ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا رقبہ پورے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے برابر ہے۔ ایک طرف اس کی سرحد بحیرہ روم سے ملتی ہے۔ شمال میں یہ صحرا اطلس کی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ مغرب میں اس کی سرحد بحرالکاہل تک ہے اور مشرق میں یہ بحیرہ احمر تک جاتا ہے۔ صحرائے صحارا کی سرحدی پٹی 3200 میل (5150 کلو میٹر) لمبی ہے۔ شمال اور جنوب میں اس صحرا کی کوئی واضح سرحدی لائن نہیں ہے لیکن یہاں 62 میل چوڑا ایک ایسا چٹیل میدان ہے جو آہستہ آہستہ صحرا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جنوب میں صحارا اور سوانا کے سرسبز میدان کے درمیان سوڈان کا وہ علاقہ ہے جو ’’ساحل‘‘ کہلاتا ہے۔اس ریگستان میں پہاڑوں کے دو سلسلے ہیں۔ ایک 11,204 فٹ بلند اور دوسرا 9852 فٹ بلند ہے۔ صحارا عربی لفظ ’’صحرا‘‘ کی جمع ہے جس کے معنی ’’ریگستان‘‘ کے ہیں لیکن اس صحرا کے مختلف حصوں کے اپنے علیحدہ علیحدہ نام ہیں مثلاً جنوب مغربی الجزائر اور شمال مشرقی مالی میں یہ ’’تینزرنٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ صحارا کا مشرقی حصہ ’’تیزی‘‘ یعنی خوفناک میدان کہلاتا ہے۔ یہ صحرا افریقہ کے دس ملکوں میں منقسم ہے۔ شمال میں مراکش‘ الجزائر‘ تیونس‘ لیبیا اور مصر ہیں۔ جنوب میں ماریطانیہ‘ مالی‘ نائیجر‘ چاڈ اور سوڈان ہیں۔ اس صحرا کا ایک 11 واں علاقہ بھی ہے جس کے بارے میں ماریطانیہ اور مراکش میں تنازع ہے۔ یہ علاقہ ’’مغربی صحارا‘‘ ہے۔اکثر لوگ صحارا کو ریت کا ایک نہ ختم ہونے والا سمندر سمجھتے ہیں۔ جس میں اڑتی ہوائیں اس ریت کو ٹیلوں میں تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ درحقیقت ہوا جس انداز میں ریت کو ٹیلوں میں تبدیل کرتی ہے اس سے یہ ایک حسین منظر بن جاتا ہے۔ یہ ٹیلے 755 فٹ کی بلندی تک ہوتے ہیں۔ ان کی اشکال بھی مختلف ہوتی ہیں۔ زیادہ تر علاقے کا موسم گرم اور خشک ہے جہاں ریت کے ٹیلے آگ کی مانند تپتے رہتے ہیں۔ خاص کر باہر سے داخل ہونے والی نسبتاً ٹھنڈی ہوائیں‘ خشک اور مربوط ماحول کے باعث گرم جھکڑوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ دن کے وقت یہاں درجہ حرارت 183 فارن ہائیٹ ہوجاتا ہے۔