ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

دھرنے کے دوران کس نے مذاکرات کئے اور کیا طے کرکے مکر گئے؟ فضل الرحمان نے پردہ اٹھا دیا

datetime 15  اپریل‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)جمعیت علمائے اسلام (ف)اورپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات پر عدلیہ نے قبضہ کرلیا،پارلیمنٹ قانون منظور کر رہی ہے، ابھی ایکٹ بنا نہیں چیف جسٹس نے بنچ بنادیا،آئینی طور پر اختیار تقسیم ہیں

پھر کیوں مداخلت کی جارہی ہے؟،ہر شعبے میں مداخلت ہوگی تو ہم اسے عدالتی مارشل لا کہیں گے،پارلیمنٹ کی حفاظت کیلئے لڑیں گے،اکتوبر میں ہمارے ساتھ مذاکرات ہوئے باجوہ صاحب نے پورا اختیار جنرل فیض کو دیا،مذاکرات میں جنرل فیض کیساتھ چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی بھی تھے،6 افراد کے درمیان اسمبلی توڑنے کی تاریخ طے ہوئی تھی ، اگلے سال مارچ میں الیکشن کروانے کی تاریخ طے ہوئی تھی، عمران خان کو پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری عنصر سمجھتا ہوں، عمران خان کو لانچ کیا گیا،عمران خان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، کیا پاکستانی قوم اور سیاست اتنی گر گئی ہے؟، دل سے نکال دیں ہم اس طرح کے شخص سے کہیں گے کہ صاحب، آپ بتادیجیے ہم کب انتخاب کروائیں گے۔ ہفتہ کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات پر آپ نے قبضہ کرلیا۔انہوںنے کہاکہ آئینی طور پر اختیار تقسیم ہیں پھر کیوں مداخلت کی جارہی ہے؟سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ہر شعبے میں مداخلت ہوگی تو ہم اسے عدالتی مارشل لا کہیں گے۔انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ قانون منظور کر رہی ہے، ابھی ایکٹ بنا نہیں چیف جسٹس نے بنچ بنادیا۔سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ اکتوبر میں ہمارے ساتھ مذاکرات ہوئے باجوہ صاحب نے پورا اختیار جنرل فیض کو دیا۔ مذاکرات میں جنرل فیض کے ساتھ چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی بھی تھے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مذاکرات میں اکرم درانی، طلحہ محمود میرے ساتھ تھے،

مذاکرات میں 6 افراد کے درمیان اسمبلی توڑنے کی تاریخ طے ہوئی تھی اور الیکشن کا نیا شیڈول متعین ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں اگلے سال مارچ میں الیکشن کروانے کی تاریخ طے ہوئی تھی، جب ہم نے دھرنا اٹھا لیا تو کہا گیا ہم نے کوئی بات ہی نہیں کی۔مولانا فضل الرحمان نے سوال کیا کہ کیا اتنے ذمہ دار پوسٹ پرلوگ اتنی کچی باتیں کرتے ہیں؟

انہوں نے کہاکہ چوہدری صاحبان کو احساس ہونا چاہیے تھا کہ زبان دی ہے،وضع دار لوگ ہیں کیا یہ کہتا ہے کہ لکھ کر اور دستخط کر کے دیں، ہم نے اس تکلف سے اجتناب کیا۔سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ طے ہوا لیکن وعدہ پورا نہیں کیا گیا، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی کس کس بات کا ذکر کریں۔انہوںنے کہاکہ عمران خان کو پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری عنصر سمجھتا ہوں،

عمران خان کو لانچ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، کیا پاکستانی قوم اور سیاست اتنی گر گئی ہے؟مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ دل سے نکال دیں ہم اس طرح کے شخص سے کہیں گے کہ صاحب، آپ بتادیجیے ہم کب انتخاب کروائیں گے۔انہوں نے کہا کہ 2018 کے الیکشن کے نتائج کے خلاف ہم سڑکوں پر نکلے، ہم نے شاہراہ دستور پر سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرہ کیا،

کیا عدالت کو ازخودنوٹس لینے کی توفیق ہوئی؟ انہوںنے کہاکہ اْس وقت کی اسٹیبلشمنٹ دھاندلی کی پشت پناہی کر رہی تھی، کیا آج کی اسٹیبلشمنٹ سے درخواست کرسکتے ہیں کہ اْس وقت کی اسٹبلشمنٹ کی دھاندلی کا احتساب کرے؟ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا اپنا فلسفہ ہے انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت ہٹانے کی بات کی تھی۔انہوں نے کہا کہ میرا مؤقف تھا کہ سندھ اسمبلی توڑ کر اور دیگر اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر حکومت کو ہٹائیں۔

فضل الرحمان نے کہاکہ سب متفق ہوگئے کہ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جائے تو ہم نے سیاست میں تقسیم پسند نہیں کی۔انہوںنے کہاکہ آج ہم اس کو بھگت رہے ہیں، یہ مہنگائی اس کی دی ہوئی ہے،اب وہ مظلوم بنا پھر رہا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ سپریم کورٹ تضادات کا شکار ہے، ایک طرف کہتے ہیں 90 دن کے اندر الیکشن دوسری طرف ہمیں کہتے ہیں بات چیت سے معاملہ طے کریں، اگر ہم بات چیت کریں گے تو پھر آئین کدھر ہو گا؟۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈائیلاگ کی بات کر کے خود آئین کی نفی کر رہی ہے،

پی ڈی ایم ایسے لوگوں سے بات چیت نہیں کرے گی، سپریم کورٹ نے ایک ہی نشست میں فیصلہ دے دیا اور کہا فیصلہ تسلیم کرو، ہم سیاسی لوگ ہیں رائے رکھتے ہیں، اس طرح تو نہیں ہو سکتا۔پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ہٹانا انتظامی معاملہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ وکلا کا ایک ناکام شو ہے، پی ڈی ایم ایک قومی حکومت کی حیثیت رکھتی ہے، پارلیمنٹ جیتے گی ہم پہلے بھی سڑکوں پر آنے کے عادی ہیں، امریکا، یورپ چاہے کوئی اور ادارہ ہو جو ان کیلئے حرکت کرے گا تو پھر سڑکوں پر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت محاذ آرائی سپریم کورٹ کی طرف سے ہے حکومت کی طرف سے نہیں، ماضی میں بھی ایمرجنسی کو سپورٹ نہیں کیا، تحمل سے کام لیا جا رہا ہے تاکہ یہاں تک صورتحال نہ پہنچے، عوام بھی سمجھ رہے ہیں کون رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ عمران کہتا ہے کہ الیکشن کو تسلیم کرنے کا فیصلہ نتیجہ آنے کے بعد ہوگا ،دو تہائی اکثریت نہ ملنے کی صورت میں نتائج تسلیم نہیں کریں ،اس کی حیثیت کیا ہے ؟۔انہوںنے کہاکہ ہمارے کارکن عوام آج بھی میدانوں میں نکلنے کے لئے تیار ہیں۔انہوںنے کہاکہ صرف چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے کافی نہیں بلکہ چیف جسٹس کو بھی کہنا چاہیے کہ وزیر اعظم کا ہر حکم تسلیم ہوگا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…