لاہور( این این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ قراردادکے ذریعے سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم نہیں ہو سکتا، مریم نواز نے بالکل اسی طرح جال بچھایا ہے جس طرح آصف زرداری نے جال بچھایا تھا اور اس کے ذریعے یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کرایا تھا، شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے
ساتھ پانچ سال کے لئے بھی نا اہل ہو جائیں گے اورپارٹی مریم کو واپس مل جائے گی ،امید ہے نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں سارے معاملات وہاں زیر بحث آئیں گے ، اداروںکی طرف سے وزیر اعظم کو یہ بات باور کرائی جائے گی کہ پاکستان کے ادارے پاکستان کے آئین سے منسلک ہیں ،پاکستان کے ادارے آئین کا احترام کرتے ہیں اور ہم نے پاکستان کے آئین کے تحفظ کا حلف ٹھایا ہوا ہے ،معاشی بحران سے نکلنے کے لئے سیاسی بحران سے نکلنا ضروری ہے اور ہم آج ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس میں اسی کی توقع کر رہے ہیں، پنجاب کی نگران حکومت 20اپریل اور خیبر پختوانخواہ کی ایک ہفتے بعد ختم ہو رہی ہے ، اس کے بعد جو کسی چیک پر دستخط کرے یا ایڈمنسٹریٹو آرڈر دے گا تو وہ آئین کے آرٹیکل6 کا مرتکب ہوگا ،الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرے اور سپریم کورٹ کو ریفرنس ارسال کرے کہ دونوں صوبوںمیں نئی نگران حکومتوں کے لئے مشاورت کا آغاز کیا جائے ۔ پارٹی آفس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کی بجائے اس کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتی ہے ،یہ سارا بحران ہے جو اس حکومت کے رویے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ ہم واضح دیکھ رہے ہیں پاکستان میں ایک ہی بحران ہے کہ یہ حکومت اقتدار چھوڑنے اور عوام کے سامنے جانے کے لئے تیار نہیں ۔ اس وقت فاشزم کی نمائندگی ہو رہی ہے اورپاکستان کے تمام بحرانوں کی ایک وجہ ہے کہ حکومت پاکستان کے آئین پر عمل نہیں کر رہی ۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو جس معاشی صورتحال کا سامناہے ، پاکستان میں پہلی بار خوراک کے لئے ہنگامے ہو رہے ہیں ، آٹے کی قطاروں میں لگ کر 20سے زائد افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ،صنعتیں بند ہو رہی ہیں،لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں ،آٹھ لاکھ پروفیشنلز بیرون ملک چلے گئے ہیں، تمام بحران ایک نقطے پر اکٹھے ہوتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابات نہیں ہو رہے ،
اس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام ہے اور اس کی وجہ سے معاشی عدم استحکام ہے اور اب حکومت ایک آئینی بحران پیدا کر رہی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اس آئینی بحران کے کئی زاویے ہیں،ہمارا آئین دو بنیادی ستونوںپر کھڑا ہے ، پہلا بنیادی ستون ہے کہ پاکستان کے اندر اقتدار اعلیٰ وہ اللہ کی ذات ہے اور اس کا دوسر استون ہے یہ ہے کہ اللہ نے جو حدود متعین کئے ہیں عوام کے منتخب نمائندے یہ حق استعمال کریں گے،
آئین میں کوئی اور تصور ہے ہی نہیں ،اگر یہ حصہ نکال دیا جائے تو پوری ریاست اور آئین گر جاتا ہے ، بنیادی مسئلہ جو حکومت کرنا چاہتی ہے وہ عوام سے ووٹ کا حق چھیننا چاہتی ہے ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ پہلے اس حکومت نے معاشی حقوق اور سیاسی حقوق سلب کئے اور اب یہ عوام سے اپنے حکمران منتخب کرنے کا حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90روز میں انتخابات ہونے تھے
لیکن اس حکومت نے انتخابات نہیں کرائے ، نگران حکومتیں 90روز کے لئے آتی ہیں ،پنجاب اور خیبر پختوانخواہ میں 90دنوں کے بعد نگران حکومت کا آئین تصور ہی نہیں کرتا ، پنجاب کے 22 اپریل اور خیبر پختوانخواہ میں اس کے ایک ہفتے بعد 28اپریل کو نگران حکومتیں ختم ہو جائیں گی اس کے بعد کیا ہوگا آئین میں کوئی جواب نہیں ہے ، یہ جو وزراء بیٹھے ہیں اور پنجاب میں یہ الزام بھی ہے کہ بہت سے لوگوں نے وزارتیں خریدی گئی ہیں ،
یہ لوگ 22اپریل کے بعد کوئی چیک دستخط نہیں کر سکیں گے ،کوئی ایڈ منسٹریٹو حکم جاری نہیں کرسکیں گے اور جو کوئی کرے گا وہ اپنے رسک پر کرے گا، وہ آئین کے آرٹیکل 6 کا مرتکب ہوگا اور وہ اتنا ہی بڑا جرم کرے گا جتنا مارشل لاء لگانا جرم ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرے اور سپریم کورٹ کو ریفرنس ارسال کرے کہ دونوں صوبوںمیں نئی نگران حکومتوں کے لئے مشاورت کا آغاز کیا جائے ۔
فواد چوہدری نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ایک مضحکہ خیز قرارداد منظور کی ہے ، اگر دیکھا جائے تو حالیہ جو سیشن ہوا ہے اس میں کسی روز چار ، کسی روز آٹھ اراکین شریک ہوئے ہیں، جو قرارداد پاس ہوئی ہے اس پر 42لوگوںنے دستخط کئے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کا ایوان 372کا ایوان ہے ۔ انہوںنے کہا کہ حکمران یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ جو مرضی کر لے ہم انتخابات کرا نے کے لئے تیار نہیں ہے ، عوام جو جو مرضی کر لیں ہم انتخابات نہیں کریں گے ،
پھر صرف یہ جبر اور ظلم ہی کر سکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کے اوپر وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا اور اس کے بعد یہ معاملہ کابینہ میں لے کر آئے ، وفاقی کابینہ نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ہم سپریم کورٹ کو حکم کو مسترد کرتے ہیں،آج سے پہلے کسی کابینہ نے اس قدر غیر ذمہ درانہ سنگین اور احمقانہ اعلامیہ جاری نہیں کیا ،پاکستان کا آئین اختیارات کی تقسیم کے فارمولے پرقائم ہے ،
پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کا اپنا اپنا اختیار ہے تینوں ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے،فوج اور ججز کے کنڈکٹ پر تنقید نہیں کریں گے ۔لیکن وفاقی کابینہ سے ایک اعلامیہ جاری کر دیا گیا ۔جن وزراء نے یہ کہا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں وہ آئین کے آرٹیکل204،190اور 2اے کے تحت آئین کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ ہمیں وہ نام دیدیں جو وزراء کابینہ کے اجلاس میں شامل تھے لیکن سارے وزیروں نے انکار کر دیا ہے کہ ہم تو شامل ہی نہیں تھے۔
بلاول بھٹو کے آفس سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے میٹنگ ہی اٹینڈنہیں کی ،شیری رحمان نے کے آفس نے بھی کہا کہ ہمارا تو اعلامیے سے تعلق نہیں ہے، فرخ حبیب نے سیکرٹری کیبنٹ کو خط لکھا ہے کہ آپ بتائیں اس وقت اجلاس میں کتنے وزراء شامل ہوئے تھے اور ایجنڈا کس نمبر پر تھا اور اس پر کس کس نے دستخط کیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ میں جانے سے دو دن پہلے بھی کہا گیا کہ ہم سپریم کورٹ کے بنچ پر اعتماد کیا ہے اور ہم بائیکاٹ کر رہے ہیں، جب ان کے وکلاء سپریم کورٹ میں پہنچے تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ بائیکاٹ کر رہے ہیں
آپ کیسے دلائل دینا چاہتے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ ہم نے تو بائیکاٹ نہیں کیا ، حکومت نے ترلے منتیں کر کے دوبارہ دلائل دئیے ، (ن) کے اکرم شیخ ، ،پیپلز پارٹی فاروق ایچ نائیک اور جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جو اعلامیہ جاری کیا گیا وہ میڈیا کی مس رپورٹنگ ہے ہم نے تو بائیکاٹ نہیں کیا ہم اس پر حصہ لینا چاہتے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ مریم نواز نے ایک جال بچھایا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آصف زرداری نے جال بچھایا تھا اور اس کے ذریعے یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کرایا تھا آج مریم نواز ،آصف زرداری کا شاگرد ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے چچا کو نا اہل کرانے کے لئے جال بچھا رہی ہیں،
شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے ساتھ پانچ سال کے لئے بھی نا اہل ہو جائیں گے اورپارٹی مریم کو واپس مل جائے گی اور ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی ، لیکن یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے ، اگر شہباز شریف میں سمجھ اورعقل ہے تو وہ سمجھ جائیں گے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے آئین پر عمل ہونا لازمی ہے ، آج جمعہ کے روز نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ بلائی گئی ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ سارے معاملات وہاں زیر بحث آئیں گے ۔ اداروںکی طرف سے وزیر اعظم کو جو ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیںانہیں یہ بات باور کرائی جائے گی کہ پاکستان کے ادارے پاکستان کے آئین سے منسلک ہیں ،پاکستان کے ادارے آئین کا احترام کرتے ہیں
اور ہم نے پاکستان کے آئین کے تحفظ کا حلف ٹھایا ہوا ہے ، ہم نے کسی سیاسی جماعت کے سیاسی مفادات کو تحفظ دینے کا حلف نہیں اٹھایا ہوا ، سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے ، آپ کو فیصلے سے اختلافات ہے تو قانونی طریقہ ہے نظر ثانی دائر کریں اور سپریم کورٹ اس پر کیا فیصلہ کر سکتی ہے ۔انہوںنے کہا کہ یہ کہنا کہ بنچ دو ، چھ ، آٹھ کا دس ہوگا ، چیف جسٹس کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بنچ بنائیں اس میں یہ جج ہونے چاہئیں،یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے ، چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ کے ججز نے آئین کا تحفظ کیا ہے اور اسی وجہ وہ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں ۔فواد چوہدری نے کہا کہ یہ صرف تحریک انصاف کا جھگڑا نہیں ہے ،
ہر پاکستانی کا جھگڑا ہے ،دو چار کے بنچ کا مسئلہ نہیں ہے ، صرف یہ ہے کہ اگر اسمبلی نہیں ہے تو 90روز میں انتخابات ہونے چاہئیں ۔سپریم کورٹ نے ہفتہ آگے کیا ہے مجھے سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اختلاف ہے لیکن سپریم کورٹ حتمی ہوتی ہے اس کا ہر فیصلہ ماننا پڑتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ مسائل کا حل یہ ہے کہ پاکستان کے ادارے یہ بات باور کرائیں کہ پاکستان کاآئین مقدم رہے گا ،عوام سب سے اہم ہیں ،ووٹ کا حق سب سے اہم ہے ،حکومت آئیں بائیں شائیں نہیں کرسکتی بلکہ اسے آئین کے مطابق اقدام کرنا ہوگا اور یہ بحران کا مسئلہ حل ہو جائے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت اسی ضد میں رہی کہ سپریم کورت کو نہیں ماننا تو ہم ایک بڑی تحریک کے لئے تیار ہیں،
پہلے تو آئین ہے قانون ہے اس کے دائرے میں رہتے ہوئے تحریک چلتی ہے لیکن جب آئین ہی ختم ہو جائے تو گا پھر ہر شخص کو یہ حق ہوگا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق احتجاج کا کیا طریقہ اختیار کرتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ 1970میں پاکستان کی سب سے بڑی جماعت اور ادارے کو آمنے سامنے لایا گیا جس سے پاکستان دولخت ہو گیا ، ہم قطعی طور پر اداروں ، ان کے سربراہان کے ساتھ جھگڑے کے حق میں نہیں ہے ، ہمیں پوری امید ہے توقع ہے کہ پاکستان کے آئین کاحلف اٹھانے کی وجہ سے تمام ادارے اور سربراہان اس کا پہرہ دیں گے اور پاکستان اس بحران سے نکلے گا ،معاشی بحران سے نکلنے کے لئے سیاسی بحران سے نکلنا ضروری ہے اور ہم آج ہونے والے
قومی سلامتی کے اجلاس میں اسی کی توقع کر رہے ہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ رانا ثنا اللہ جب آئین کو ریفر کریں تو اس کو سنجیدگی سے نہیں لینا ، آئین کاآرٹیکل233،234اور235پاکستان میں ایمر جنسی کوڈیل کرتے ہیں ،آپ رانا ثنا اللہ کی بات نہ سنیں بلکہ اس ان آرٹیکلز کا خود جائزہ لیں ان میں کوئی بھی ایسی صورتحال نہیں جس میں ایمر جنسی آ سکتی ہے ، اگر انتخابات کوروکنا ہے تو آئین کو اٹھا کر باہر پھینک دیں پھر مارشل لاء لگ جائے ، مارشل لاء علیحدہ صورتحال ہے ،پھر قوم نے فیصلہ کرنا ہے اس نے جمہوریت کے لئے لڑنا ہے یا نہیں لڑنا ، آپ مارشل لاء کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور انتخابات کو نہیں ٹال سکتے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے
والی قرارداد کی صرف اتنی قانونی حیثیت ہے کہ ایک طرف سے صفحہ بھرا ہوا ہے اور دوسری طرف سے صفحہ خالی ہے اور لکھنے کے کام آ سکتاہے ، قراردادوں سے سپریم کورٹ کے فیصلے ختم نہیں ہوتے، اگر اس کو ختم کرنا ہے تو آپ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے سپریم کورٹ کی ججمنٹ کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ سو موٹو کے حوالے سے جو بل ہے وہ بد نیتی پرمبنی بل ہے جس میں پچھلی تاریخ سے نواز شریف کو حق دیدیا گیا ہے وہ کسی طریقے سے بحال ہو جائیں، پاکستان مین آنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اورمریم صفدر پاکستانیوں کے پیسے واپس کریں اورجہاں مرضی جائیں ، نواز شریف عوام کے پیسے بھی ہضم بھی کرنا چاہتے ہیں اور وزیر اعظم بھی بننا چاہتے ہیں ،مریم نواز نے بھی پیسے دینے ہیں ، آپ اپنا اپنا اپارٹمنٹ بھیجیں اور پیسے واپس دیں ۔
انہوںنے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے آرمی چیف نے ایک تقریر کی تھی جس میں انہوںنے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں پاکستان کے مسائل کا حل اتفاق رائے سے آگے بڑھنے میں ہے ،ہم تو انتظار کر رہے ہیں اس کو پریکٹیکل کو کیسے آگے بڑھایا جائے ، ہم بھی چاہتے ہیں اورہماری خواہش ہے کہ حکومت اور اپوزیشن بیٹھیں اور قومی انتخابات کی تاریخ طے کریں لیکن حکومت انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتی۔حکومت لوگوں کے سامنے سرنڈر نہیں کرنا چاہتی لیکن ہم تو اپنا حق نہیں چھوڑیں گے اس کے لئے ہمیں جتنا عرصہ مرضہ لڑنا پڑے ،بارہ ماہ سے جدوجہد کر رہے ہیں اور آگے بھی جہاں تک ضرور ہوئی جدوجہد کریں گے ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے تو مجھے حالات میں بلی چڑھانے کے لئے سجا ہوا بکرا وزیر اعظم ہی نظر آرہا ہے ۔انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ آج نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ ہے جس میں صورتحال سامنے آ جائے گی ،اعلامیہ طے کر دے گا کون کدھر کھڑا ہے جو جدھر کھڑا ہوگا وہ طے کر دے گا۔