لاہور /اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت حکومت میں شامل جماعتوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،
چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے،سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،چیف جسٹس سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں، ،پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے،پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہے ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے،صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے،ملک بھر میں ایک ہی دِن انتخاب ہونے چاہئیں،معاشی، سکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امورکو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے،لشکر اور جتھوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دبائو پر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائیگی جبکہ سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ نو اراکین پر مشتمل بینچ تین ممبرانِ کا رہ گیا اخلاقی طور پر چیف جسٹس کو اور دو رفقاء کو کیس سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور اس معاملہ کو ختم کرنا چاہیے، چیف جسٹس ہمیں نصیحت کر رہے کہ معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئے ،خود چیف صاحب نے معزز عدالت کو تقسیم کردیا ہے ، عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ سے متعلق کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے نہ ہی ہم کسی مجرم کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
ہفتہ کو وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں سابق صدر آصف علی زرداری، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹوزرداری، مریم نواز شریف سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور رہنمائوں نے شرکت کی۔ اجلاس وڈیو لنک کے ذریعے منعقد ہوا۔ اجلاس نے ملک کی مجموعی صورتحال پرتفصیلی غور کیا
اور مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت کی۔اجلاس نے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں ایک ہی دِن انتخاب ہونے چاہئیں، یہ غیرجانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے جس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردیگا، یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہوگی۔ اجلاس نے واضح کیا کہ لشکر اور جتھوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دبائو پر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائیگی۔
اعلامیہ میں کہاگیاکہ بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی وآئینی بحران بنادیاگیا ہے، معاشی، سکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امورکو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے،خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے،یہ آئین وقانون اور الیکشن کمشن کے اختیار کے بھی منافی ہے، آئین کے آرٹیکل218 (3 ) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،
یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان ازخود نمبر 1/2023میں دے چکے ہیں۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتا ہے۔ اور تقاضا کرتاہے کہ ازخود نوٹس نمبر 1/2023 کے چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔اعلامیہ میں کہاگیاکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، یہ طرز عمل ملک میں ایک سنگین آئینی وسیاسی بحران ہی نہیں
بلکہ آئین اور مروجہ قانونی طریقہ کار سے انحراف کی واضح مثال ہے،جو ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اجلاس نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم دیا ہے، متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209کے
تحت دائر کردہ ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔ اجلاس نے واضح کیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طورپر بینچ سے الگ ہوچکے تھے لہذا وہ موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہوسکتے،اس بابت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز واضح ہیں ، یہ سب کچھ ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔ اجلاس نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں تاکہ وَن مین شوکا تاثر ختم ہو۔ اجلاس نے آرٹیکل 63 اے کے
معاملے پر تین رکنی فیصلے کو سیاسی عدم استحکام کاباعث قرار دیا جس کے ذریعے آئین کو ری رائیٹ کیا گیا۔ اجلاس نے قرار دیا کہ اعلیٰ ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے۔ لہذا عدالت عظمیٰ کو متازعہ سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ مطالبہ کیاگیاکہ چیف جسٹس اور بعض دیگر ججوں سے متعلق یہ تاثر بھی ختم کیاجائے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے معاملے خصوصی امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں۔ اعلامیہ میں کہاگیاکہ یہ بھی واضح کیا کہ سیاستدانوں کو مل کر بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہدایت کرنے والے خود تقسیم ہیں ، انہیں اپنے اندر بھی اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا چاہیے۔
وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ نے اجلاس کوآئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی سے متعلق آگاہ کیا اور سپریم کورٹ میں معزز جج صاحبان کے درمیان اختلافی فیصلوں اور بینچوں کے اجراء سے پیدا ہونے والے صورت حال پر بریفنگ دی۔ اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ اس قانون سازی سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردی گئی ہیں جبکہ عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں داد رسی کا حق دیاگیا ہے جو فطری انصاف اور آئین کی بنیادی منشا ہے،پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے،
پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہے ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔ اجلاس نے ا میدظاہر کی کہ صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اجلاس کو ملک کی معاشی صورتحال پر بریفنگ دی۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، امین الحق ، سردار اختر مینگل، ہاشم نوتزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،محمد طاہر بزنجو، محمود خان اچکزئی، شفیق ترین، اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی ، میاں افتخار حسین ، باپ کے ڈاکٹر خالد مگسی، چوہدری سالک حسین، طاہر بشیر چیمہ،نوابزادہ شاہزین بگٹی، آفتاب احمد شیرپاؤ، خواجہ محمد آصف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سردار ایاز صادق،
خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، رانا تنویر حسین، مریم اورنگزیب ، ملک محمد احمد خان، عطاء اللہ تارڑ، علامہ ساجد میر، اسلم بھوتانی ، مولانا عبدالغفور حیدری، شاہ اویس نورانی ، کامران مرتضی، محسن داوڑ، فاروق ایچ نائیک، مرتضی وہاب، شیراز راجپر شریک ہوئے۔ دریں اثناء نجی ٹی وی کے مطابق برسر اقتدار پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ اور اتحادی جماعتوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کے معاملے پر سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم شہبازشریف نے دو صوبوں میں انتخابات ملتوی کرنے پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کی مجوزہ سماعت کے معاملے پر حکومتی تعاون سے متعلق مشورے کے لیے
سابق وزیراعظم نواز شریف سے رابطہ کیا۔نوازشریف نے مشورہ دیا کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو 3 رکنی بینچ کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، 3رکنی بینچ سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے کیونکہ 3رکنی بینچ میں ثاقب نثار زدہ لوگ شامل ہیں۔اجلاس میں مشاورتی گفتگو کے دوران یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو کر3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کریں، اٹارنی جنرل کارروائی کے بائیکاٹ سے مطلع کر دیں، اٹارنی جنرل پیر کے روز 3 رکنی بینچ کی کارروائی کے بائیکاٹ سے سپریم کورٹ کو آگاہ کریں گے۔اجلاس میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ کے بائیکاٹ کے مشورے پی ڈی ایم کی قیادت سے بھی موصول ہوئے جن کی نوازشریف نے توثیق کر دی ہے۔ نواز شریف نے کہاکہ
بینچ کے بائیکاٹ کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے، سیاسی قیادت کے اکثریت کے مطالبے کے باوجود فل بینچ کا نہ بننا خاص ایجنڈے کی نشاندہی ہے۔دوسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی کے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین سے متعلق از خود نوٹس زیر سماعت ہے،انتخاب سے متعلق جو پہلا بینچ بنا تھا وہ 9 ممبران پر مشتمل تھا،نو اراکین پر مشتمل بینچ تین ممبرانِ کا رہ گیا ، جج صاحبان کی علیحدگی کے بعد فیصلہ از خود نوٹس کے خلاف ہوگیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس صاحب بضد ہیں کہ اس کیس کو ہر قیمت پر سننا ہے ،ایسی صورت حال میں سیاستدان ، پارلیمنٹ اور عوام کیا رائے قائم کرے۔
انہوں نے کہاکہ ہماری نظر میں سپریم کورٹ اور موجودہ بینچ اس کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار ادا کر رہا، دو صوبوں میں انتخابات سے متعلق فریق کے کردار کے بعد ظاہر ہے ،ہمیں اس عدالت پر کوئی اعتماد نہیں رہا ۔ انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس صاحب ہو یا انکے ساتھ شریک دو معزز جج صاحبان کی جانبدارانہ روش نے سپریم کورٹ کو تقسیم کردیا ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ حیرت اس بات پر ہے کہ عدالت عظمیٰ پاکستان کا انتہائی قابل قدر اور بلند رتبہ ادارہ ہے، چند ججز واضح طور پر عمران خان کو ریلیف دینا چاہتے ہیں، انکی پارٹی کے موقف کو ہر قیمت میں جتوانا چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ایسی صورت میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنا گواراکیا ہے تاہم جس کو سپورٹ کر رہے اس سے دستبردار نہیں ہورہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اخلاقی طور پر چیف جسٹس کو اور انکے دو رفقاء کو اس کیس سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور اس معاملہ کو ختم کرنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ چیف جسٹس ہمیں نصیحت کر رہے کہ اس معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئے اور خود چیف صاحب نے معزز عدالت کو تقسیم کردیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہم کس کے ساتھ بات کرے، ایک مجرم کے ساتھ جس کو دھاندلی کے زریعے لایا گیا تھے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے پندرہ ملین مارچ کئے آزادی مارچ کئے اس وقت آپ کو احساس نہیں ہوا اپ نے از خود نوٹس کیو ںنہیں لیا ؟۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ 25 جولائی کی دھاندلی کی دو مرکزی مجرم آج بھی کھلے عام گھوم رہے ،آج بھی انکے خلاف آپ کوئی نوٹس نہیں لے رہے ۔ انہوںنے کہاکہ صوبوں میں انتخابات کروانا یا ملک میں انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، کس طرح اپ کسی ادارے کے انتظامی اختیار پر قبضہ کر رہے ۔
انہوں نے کہاکہ از خود نوٹس کیس چار اور تین سے مسترد ہوچکا ہے لہذا اس پر اب دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس بینچ پر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر عدم اعتماد کرتے ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج کہا جارہا آئین کا تقاضا ہے کہ نوے دن میں انتخابات کروائے جائے یہ آئین کا تقاضا اس وقت کیو نہیں تھا جب یہ عدالت ایک امر پرویز مشرف کو تین سال میں الیکشن کروانے کی اجازت دے رہا تھا۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت ملک میں مردم شماری ہورہی ہے، کچھ ماہ بعد نئی حلقہ بنایا، نئی ووٹر لسٹ اور نیا بننے والا ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے گا۔ انہوںنے کہاکہ سیاسی لحاظ سے ملک کو ایک رکھنے کیلئے سن سنتالیس سے پاکستان میں الیکشن ایک دن میں ہوتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ احتیاط سے کام لیا جائے ، فریق بن کر کردار نہ ادا کیا جائے، سپریم کورٹ کو متحد رہنے دیا جائے، سپریم کورٹ کو غیر جانبدار رہنے دیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ سے متعلق کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے نہ ہی ہم کسی مجرم کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔